• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلاسٹک شاپنگ بیگ نکاسی آب کے انڈرگراونڈ اورکھلے سسٹم دونوں میں نہ صرف رکاوٹ اورگندگی پھیلانے کاباعث بنتے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔جن میں مچھروں کی افزائش ہونا فطری امرہے۔آندھی اورجھکڑ چلنے کے دوران بھی کوڑے کے ڈھیر پرپڑی گلی سڑی چیزیں گندگی گھر گھر پہنچانے کاباعث بنتی ہیں۔پلاسٹک شاپنگ بیگ نہ توتحلیل ہوسکتے ہیں اورنہ ان کی ری سائیکلنگ ممکن ہے۔زمین کے اوپر ان کی تعداد کس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کااندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت نہ صرف سالانہ55ارب شاپنگ بیگ استعمال ہورہے ہیں بلکہ ان کی سالانہ تیاری میں 15فیصد اضافہ ہورہاہے۔یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔پاکستان تحفظ ماحولیات ایجنسی(پاک ای پی اے)کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں پلاسٹک تھیلوں کی تیاری کے 8021 پیداواری یونٹ ہیں جن کی اوسط استعداد500کلوگرام تک یومیہ ہے ان میں سے اکثریت کاتعلق گھریلو صنعت سے ہے اورایک لاکھ60ہزارافرادبراہ راست جبکہ60ہزار بالواسطہ اس صنعت سے وابستہ ہیں۔پلاسٹک بیگ کو جلانے کے عمل میں ڈائی آکسین اورفیورینس نامی گیس پیدا ہوتی ہے جو خطرناک بیماری کاباعث بنتی ہے ۔مختلف ممالک ان تمام تجربات سے گزرنے کے بعد ان کی تیاری اوراستعمال پرپابندی لگانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔پاکستان تحفظ ماحولیات ایجنسی نے بھی پلاسٹک تھیلوں کی تیاری،فروخت اوراستعمال پرپابندی کواس مسئلہ کاحل بتایاہے۔کپاس کے تھیلوں کی تیاری اس کامتبادل ہے۔پلاسٹک شاپنگ بیگ کے استعمال سے پہلے بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کپڑے کے بنے تھیلوں کارواج عام تھاجنہیں ضرورت پڑنے پر دھولیاجاتا تھا اورجب تک پولی تھن کاکوئی متبادل ذریعہ سامنے نہیں آجاتا پلاسٹک شاپنگ بیگ کی جگہ کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کارواج بحال ہوناچاہئے۔

تازہ ترین