• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی ایشیا کے تین بڑے ملک بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں، ان تینوں ملکوں کی برآمدات کے مندرجہ ذیل اعداد و شمار چشم کشا ہیں۔
1۔بھارت کی سالانہ برآمدات260 ارب ڈالر ہیں جبکہ برآمدات اور جی ڈی پی کا تناسب11.5 فیصد ہے۔ 2۔بنگلہ دیش کی سالانہ برآمدات34.8 ارب ڈالر ہیں جبکہ آمدورفت اور جی ڈی پی کا تناسب 15فیصد ہے۔3۔پاکستان کی سالانہ برآمدات20.5 ارب ڈالر ہیں، جبکہ برآمدات اور جی ڈی پی کا تناسب6.8 فیصدہے۔
جنوبی ایشیا کے ان تینوں ممالک میں بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات کے اعداد وشمار بھی دلچسپی سے پڑھے جائیں گے۔
1۔بھارت میں ایک سال میں 62ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں جبکہ ترسیلات اورجی ڈی پی کا تناسب 2.7 فیصد تھا۔ 2۔بنگلہ دیش میں ایک سال میں13.6 ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں جبکہ ترسیلات اور جی ڈی پی 6فیصد تھا۔ 3۔پاکستان میں ایک سال میں 19.3 ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں جبکہ ترسیلات اور جی ڈی پی کا تناسب 6.4 فیصد تھا۔
مندرجہ بالا اعداد وشماد سے واضح ہوتا ہے کہ ان تینوں ملکوں میں پاکستان کی برآمدات اور جی ڈی پی کا تناسب حیران کن حد تک کم ہے جبکہ ترسیلات اور جی ڈی پی کا تناسب سب سے زیادہ رہا۔ پاکستانی برآمدات اور ترسیلات کے ضمن میں چند مزید حقائق یہ ہیں۔
1۔مالی سال2011 میں پاکستانی برآمدات کا حجم 25.2 ارب ڈالر تھا۔ جبکہ مالی سال2017 میں یہ حجم کم ہو کر20.5 ارب ڈالر رہ گیا جو کہ4.7 ارب ڈالر کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مدت میں بیرونی ممالک سے پاکستان آنے والی ترسیلات 11.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 9.3 ارب ڈالر ہوگئیں یعنی8.1 ارب ڈالر کا اضافہ۔ 2۔موجودہ مالی سال میں ہدف کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات تقریباً 12ارب ڈالر کم رہیں گی جوکہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سال میں ہدف کے مقابلے میں سب سے بڑی کمی ہوگی۔ 3۔برآمدات اور جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے پست ترین ممالک کی صف میں آتا ہے۔
برآمدات کے شعبے میں مسلسل ناکامی کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ چاروں صوبوںپر بھی عائد ہوتی ہے۔ طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے وفاق اور چاروں صوبے جو معاشی پالیسیاں وضع کرتے رہے ہیں ان کے نتیجے میں معیشت کی شرح نمو سست رہتی ہے جبکہ برآمدات کے لئے مطلوبہ مقدار میں فاضل اشیاء دستیاب ہی نہیں ہوتیں اور ان کا معیار بھی کم ہوتا ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی منڈیوں کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہونے میں ہائی ٹیک اجزاء جیسے الیکٹرانکس اور مشینری وغیرہ کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے لیکن پاکستان ان شعبوں بشمول زراعت کے شعبے میں بہت پیچھے ہے، اس کی وجوہات میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کی غلط ترجیحات کے علاوہ ٹیکسوں کی چوری ہونے دینے اور کرپشن کا بھی دخل ہے چنانچہ مالی وسائل کی قلت اور اونچے بجٹ خسارے کا سامنا رہتا ہے۔
وفاق اور چاروں صوبے ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد اور وصول کرنے کے لئے عملاً تیار نہیں ہیں، ان اقدامات میں جو ان نقصانات کو پورا کرنے کے لئے اٹھائے جاتے ہیں، بجلی وگیس کے نرخوں میں اضافہ کرنا شامل ہوتا ہے جس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھتی ہے اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں، برآمدات کم سطح پر رہنے سے تجارتی خسارہ بڑھتا ہے جسے کم کرنے کے لئے ترسیلات کاسہارا لیا جاتاہے، ان ترسیلات کا ایک حصہ دراصل ترسیلات ہوتی ہی نہیں کیونکہ ناجائز دولت ہنڈی وغیرہ کے ذریعے ملک سےباہر بھیج دی جاتی ہے اور بعد میں یہی رقوم بینکوں کے ذریعے ترسیلات کی شکل میں واپس پاکستان آجاتی ہیں، یہ سب اس طرح ممکن بنایا گیا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کے تحت ترسیلات وصول کرنے والوں سے محکمہ انکم ٹیکس کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا، ایف بی آر کے ایک چیئرمین نے کچھ عرصے قبل کہا تھا کہ اس شق کی وجہ سے ٹیکسوں کی کم وصولی سے قومی خزانے کو تقریباً تین ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔
یہ امر بہرحال مسلمہ ہے کہ اگر بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات کے صرف 50فیصد تک کو ہی ملک میں سرمایہ کے لئے استعمال کیا جائے تو نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ یہ ترسیلات معیشت کےلئے بھی باعث رحمت ہوں گی، جولائی 2013سے نومبر 2017 تک پاکستان نے 112ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ دکھایا تھا مگر بیرونی ممالک سے تقریباً82 ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں اور جاری حسابات کا خسارہ27.6 ارب ڈالر رہا، ترسیلات کو تجارتی خسارہ پورا کرنے کے لئے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس تباہ کن پالیسی کے زیادہ خطرناک مضمرات اس وقت مزید واضح ہوں گے جب دہشت گردی کے خاتمے کےنام پر خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں امریکا کو پاکستان کی مدد کی ضرورت مزید کم ہوجائے گی۔
گزشتہ کئی دہائیو ں سے مختلف حکومتیں تواتر سے کہتی رہی ہیں کہ پاکستان سے لوٹ کر جو دولت ملک سے باہر منتقل کی گئی ہے اسے ہر قیمت پر واپس لایا جائے گا، اب سے ایک برس قبل 20جنوری2017 کو موجودہ حکومت کی جانب سے قوم کو یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان سے لوٹ کر بیرونی ممالک میں رقوم منتقل کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا۔ اس سے کچھ برس قبل سپریم کورٹ نے بینکوں کےقرضوں کی غلط طریقوں سے معافی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ قرضے معاف کروا کر رقوم باہر منتقل کردی گئی ہیں، یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں گزشتہ 10برسوں سے التوا میں پڑا ہوا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس کیس کی سماعت ہی نہیں ہورہی، اس پس منظر میں وزیراعظم نے 17جنوری 2018کو اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ملک میں رہائش پذیر پاکستانیوں نے ملک سے باہر جو اثاثے بنائے ہیں ان کو واپس لانے کے لئے ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کیا جائے گا، اگر ایسا ہوا تو یہ ایک قومی المیہ ہوگا، وطن عزیز میں پہلے ہی جائیداد کی خریداری کے لئے معمولی ٹیکس کی ادائیگی پر دسمبر2016 میں ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراکیا گیا تھا جس سے قومی خزانے کو تقریباً 200 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے، یہ اسکیم واپس لی جانا چاہئے۔
اب اس حقیقت کا ادراک کر ہی لیا جانا چاہئے کہ ٹیکسں میں بے جا چھوٹ ومراعات دینے کے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے نہ صرف بجلی، گیس و پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جاتےہیں بلکہ زرعی شعبے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی پر مبنی مصنوعات کی پیداوار بڑھانے کے لئے مناسب رقوم بھی فراہم نہیں کی جاپاتیں، چنانچہ برآمدات متاثر ہوتی ہیں، درآمدات میں اضافہ ہوتا ہے، تجارتی خسارہ بڑھتا ہے اور بیرونی شعبہ بدستور دبائو کا شکار رہتا ہے، تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے مالیاتی این آر او پر مبنی انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) وغیرہ کی مدد سے ترسیلات میں مصنوعی اضافہ تو کرلیا جاتا ہے مگر اس سے کرپشن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، کالے دھن کو سفید بنایا جاتا ہے اور ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے کو کئی ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شیطانی چکر کو توڑنے کے لئے وفاقی وصوبائی حکومتیں، قومی سلامتی کمیٹی اور ریاست کے تمام ستون اپنا کردار موثر طور پر ادا کریں وگرنہ قرضوں میں جکڑی ہوئی کمزور معیشت سے قومی سلامتی کو درپیش خطرات بھی بڑھتے چلےجائیں گے۔

تازہ ترین