• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتیں بھی کام کررہی ہیں۔پہلے سے کہیں زیادہ۔
پارلیمنٹ اسلام آباد میں بھی فعال ہے۔ لاہور۔ کراچی۔ کوئٹہ۔ پشاور میں بھی۔صوبائی اسمبلیاں باقاعدگی سے اجلاس منعقد کررہی ہیں۔
میڈیا بھی 70 سال میں پہلے کبھی اتنا آزاد تھا نہ اتنا منہ زور۔کتنے چینل ہیں کہ دن رات نشریات جاری رہتی ہیں۔
معاشرے میں پھر بھی سکون نہیں ہے۔ قانون کی پھر بھی حکمرانی نہیں ہے۔
ہنستے مسکراتے چہرے بہت کم دِکھائی دیتے ہیں۔ کسی ہم وطن کو ذرا چھیڑ دیں تو وہ شکایات کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔
تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ دنیا نظریات سے کبھی خالی نہیں ہوتی۔ کسی صدی میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر ہم پاکستان میں جس طرح ساری صداقتوں کو جھٹلا رہے ہیں۔ وہاں ہم یہ بھی ثابت کر رہے ہیں کہ ملک نظریات کے بغیر بھی چل سکتے ہیں۔ سیاسی ریلیاں ہوں۔ مذہبی اجتماع۔ چینلوں کے ٹاک شوز۔ مذاکرے۔ مباحثے۔ تحریریں سب میں شخصیات زیر بحث آتی ہیں۔ ذاتی وفاداریاں ہی محور و مرکز ہیں۔ کسی نظریے سے وابستگی یا وفاداری کی بات نہیں ہوتی ہے۔ نئے سیاسی لیڈر۔ بلکہ شہزادے۔ شہزادیاں سامنے آرہے ہیں۔ وہ بھی اپنی ذات کی تشہیر کرتے ہیں۔ کسی سیاسی۔ معاشی۔ سماجی نظریے کو پیش نہیں کرتے ہیں۔ ملکی یا غیر ملکی یونیورسٹیوں کی پڑھائی نے ان کی شخصیت کو بالکل نہیں نکھارا۔بحث اور بات نظریات کی بنیاد پر ہو تو مستقبل کے تصورات ، حقائق اور اعداد و شُمار پیش نظر ہوتے ہیں۔ کوئی نظام اپنے خاکوں۔ اپنی حدود و قیود سمیت سامنے لایا جاتا ہے۔ آسانی سے دس پندرہ سال کا روڈ میپ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ شخصیات فانی ہیں آنی جانی ہیں۔ نظریات افکار زندہ رہتے ہیں۔ ان کے حوالے سے بات ہو تو آپ ایک دوسرے کی ذاتیات کو زیر بحث نہیں لاتے۔ کسی کو گالیاں دینے یا مذاق اڑانے کے لیے نام رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔صدیوں سے فلسفی۔ مدبر۔ دانشور۔ سوچ کا ایک تسلسل پیش کرتے آرہے ہیں۔ انہوں نے ہی جمہوریت کو جنم دیا۔ معیشت کے نظام دئیے۔
ہم رات دن خبروں میں مباحثوں میں صرف پگڑیاں اچھلتے دیکھ رہے ہیں۔ خاندانوں کو بزرگوں کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔
بعض حلقے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے سوویت یونین کو منہدم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ہم نے کمیونزم کو نیست و نابود کردیا۔ مگر کبھی یہ فکر نہیں کرتے کہ اس کے بدلے میں دنیا کو اور بالخصوص پاکستان کو کیا ملا ہے۔ کمیونزم اور سرمایہ داری یا آہنی پردے کے پیچھے اور آزاد دنیا کے درمیان کشمکش کے زمانے کو یاد کیجیے۔ جسے سرد جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس ساری مسابقت اور تگ و دو کا مرکز نظریات تھے۔ لڑائی کتابوں سے لٹریچر سے لڑی جاتی تھی۔ نظریات نوجوانوں میں بھی تحرّک جوش۔ جذبے کو پیدا کرتے تھے۔ اس نظریے کی ترویج۔ ترغیب اور تکمیل کے لیے نوجوان گھر بار چھوڑ کر۔ تعیش آرام کو خیرباد کہہ کر پوری عمر اس کی نذر کردیتے تھے۔ ایک طرف کمیونسٹ پارٹیوں کی سرگرمیاں تاریخ کے اوراق میں دیکھیں۔ دوسری طرف اس دور کی اخوان المسلمون۔ جماعت اسلامی۔ مشرقِ وسطیٰ کی بعث پارٹی۔ کیسے کیسے رہنما پیدا ہوئے۔ کیسے کیسے ناول لکھے گئے۔ لاہور میں مکتبۂ فرینکلن مولانا حامد علی خان کی سربراہی میں امریکی لٹریچر بہت اعلیٰ پیمانے پر پیش کرتا تھا۔ روسی منحرف ناول نگار کا ناول ڈاکٹرژواگو ایک ہی رات میں انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہوتا رہا۔ کتابت ہوتی رہی۔ اگلی صبح کاپیاں تیار ہو کر چھپا بھی اور جِلد بندی ہو کر تقسیم بھی ہوا۔ اسی طرح سوویت لٹریچر اردو میں منتقل ہو کر سستے داموں فرینڈ شپ ہائوسوں سے بانٹا جاتا تھا۔ نوجوانوں میں کتابوں اور نظریات پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا اب یہ محنت خودکش جیکٹس تیار کرنے پر ہوتی ہے۔ مختلف اقسام کی دھماکہ خیز اشیاء بنائی جاتی ہیں۔جو مرتد قرار دیے گئے۔ ان کی ریکی ہوتی ہے۔
نظریات کی بنیاد پر جو پھول کِھلتے تھے۔ ان کے رنگ ان کی خوشبو کتنے آنگنوں۔ درسگاہوں کو معطر کرتی تھی۔ نظریات میں دُھلی ہوائیں انسانیت کے لیے کتنی روح پرور تھیں۔ اس دور کے دونوں بلاکوں سے وابستہ شاعر۔ افسانہ نگار۔ ادیب۔ کالم نویس یاد کریں۔ ان کے الفاظ کا طنطنہ۔ ان کی تراکیب۔ وہ شاعر جن سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں اپنی نظمیں پڑھتے۔ ذہن کیسے منور ہوتے تھے۔ اخبارات و جرائد میں جو مباحث ہوتے تھے۔ کتنے انہماک سے پڑھے جاتے تھے۔ ان سے سنجیدہ فکر مند شہریوں کی نسلیں جنم لیتی تھیں۔ ان جلسوں۔ جلوسوں۔ مذاکروں۔ کتابوں۔ جرائد کے ذریعے شہریوں کی بن چاہے تربیت ہوتی تھی۔اس دَور کے دائیں اور بائیں دونوں بازوئوں کے لیڈروں کے نام یاد کریں۔ سب قابلِ احترام۔ سب کچھ تبدیلی لے کر آگئے۔
اب یہ سب کچھ سیکورٹی کے نام پر ختم ہوگیا ہے۔ دنیا میں بالعموم پاکستان میں بالخصوص اب صرف سیکورٹی اقدامات ہی مسائل کا حل خیال کیے جارہے ہیں۔ امریکہ اپنے اسلحے کے زور پر پوری دُنیا کو تابعدار رکھنا چاہتا ہے۔ وہاں سے کوئی بڑی کتاب بڑا نظریہ سامنے نہیں آرہا ہے۔ روس سے بھی کوئی چیخوف،پشکن۔ گورکی نہیں اُبھرتا۔ عالمِ عرب سے بھی کوئی نیا سیاسی نظریہ لے کر نہیں آرہا ہے۔ کشت و خون جاری ہے۔
یونیورسٹیاں پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ مگر وہاں جو تعلیم دی جارہی ہے۔ کتابیں پڑھائی جارہی ہیں۔ وہ جیتے جاگتے انسان نہیں۔ روبوٹ تیار کررہی ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ پرزے وہیں کی مشینوں میں فٹ ہوپاتے ہیں۔
ابلاغ یعنی اپنی بات پہنچانے کے ذرائع پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کوئی پیغام ہی نہیں ہے جسے پہنچانے کے لیے ہم بے تاب ہوں۔
نظریات۔ مینو فیکچرنگ کا محرّک بنتے ہیں۔ ایجادات وجود میں آتی ہیں۔ کارخانے لگائے جاتے ہیں۔ جہاں ہزاروں کارکنوں کو روزگار ملتا ہے۔ قوم کو اپنی مصنوعات ملتی ہیں۔ نظریات کے قحط نے صنعتوں میں بھی کمی پیدا کردی ہے۔ پاکستان میں کارخانے گرا کر شاپنگ مال بنائے جارہے ہیں۔ جہاں دوسری قوموں کی تیار کردہ اشیاء بِک رہی ہیں۔ دوسروں کے کارخانے چل رہے ہیں۔ ہمارے بند ہورہے ہیں۔مارکیٹیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اشیائے صَرف مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔تنخواہیں اخراجات کے سامنے عاجزی کا شکار ہیں۔
نظریات سے ہی قوموں کو غلامی سے نجات ملی۔ مضبوط اور موثر مملکتیں وجود میں آئیں۔
نظریات نہ ہوں تو ٹرمپ جیسے حکمراں دنیا پر مسلط ہوجاتے ہیں۔
قومی سیاسی جماعتیں۔ ملک کو مستحکم بنانے میں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب ان کی فکری بنیاد مستحکم ہوتی ہے۔ فکر ماضی۔ حال اور مستقبل کو آپس میں مربوط کرتی ہے۔ قوم کو ایک سمت دیتی ہے۔
یونیورسٹیاں اور دینی مدارس فکر کی فصلیں کاشت کرسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ایک سمت دے سکتے ہیں۔ملک کو ایک مستحکم مستقبل اور پائیدارا دارے سکتے ہیں نظریات پر بحث مباحثے ہوں گے تو پگڑیاں نہیں اچھالی جائیں گی۔ ذاتیات سے گریز ہوسکے گا۔
آپ کا کیا خیال ہے۔

تازہ ترین