• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے مشہور علاقے مین ہٹن کو دنیا بھر کا امیر ترین علاقہ تصورکیا جاتا ہے۔یہاں پر پراپرٹی کے ریٹ آسمان کو چھوتے ہیں۔دو سال قبل مین ہٹن کے پنج ستارہ ہوٹل میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔صبح صبح چہل قدمی کی غرض سے مین ہٹن کے ارد گرد گھوم رہا تھا۔جن قارئین کو امریکہ جانے کا اتفاق ہوا ہے اور مین ہٹن کے علاقے میں قیام کیا ہے،انہیں معلوم ہوگا کہ وہاں بڑے بڑے ڈیجیٹل ہولڈنگز نصب ہیں۔ ایک ڈیجیٹل ایل سی ڈی پر مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کی تصویر لگی ہوئی تھی۔مین ہٹن سے گزرنے والے بڑے غور سے اور ادب کے ساتھ بل گیٹس کی تصویر کو دیکھتے اور آگے گزر جاتے۔یہ خاکسا ر کافی دیر تک اس منظر کو غور سے دیکھتا رہا۔اچانک ایک راہ چلتے شخص سے میں نے جان بوجھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟جسے آپ سب لوگ ادب سے دیکھ کر گزر رہے ہیں تو امریکی شہری نے بڑے فخر سے کہا کہ یہ دنیا کا امیر ترین آدمی ہے اور امریکہ کا شہری ہے۔دنیا بھر میں اس کی وجہ سے امریکہ کی عزت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔اس لئے امریکی عوام اس شخص کی دل سے عزت کرتے ہیں۔اسی طرح ایک سال قبل چین جانے کا اتفاق ہوا۔پاکستان کے ایک معروف بزنس مین میاں منشاسفر میں ہمراہ تھے۔دوران سفر طویل گفتگو کا سلسلہ جاری رہا ۔وہ بتانے لگے کہ ایک مرتبہ تھائی لینڈ میں سفر کررہے تھے اور انہوں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ایک بلند و بالا عمارت کے متعلق دریافت کیا تو اس ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی گاڑی روک دی اور اس عمارت کے آگے جھکا اور سیلوٹ کیا اور پھر بتانے لگا کہ یہ ہمارے فلاں امیر ترین آدمی کا محل ہے۔میاں منشا نے اس ٹیکسی ڈرائیور سے استفسار کیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو اس نے مسکرا کر کہا کہ اس شخص کی دنیا بھر میں شہرت ہے اور اس کی شہرت کی وجہ سے ہمارے ملک کی عزت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔اس لئے ہم سب کو اس کی عزت کرنی چاہئے۔مگر پاکستان میں حالات بالکل مختلف ہیں۔ہمارے رویوں میں منفی سوچ اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ ہم ہر بڑے آدمی کو گالی دے کر فخر محسوس کرتے ہیں۔کسی کو ہم آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔سیاست میں عدم برداشت اور بدکلامی کی بنیاد عمران خان صاحب نے رکھی پھر رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی۔بغیر تحقیق کے معزز آدمی کو گالی دے کر ہم اپنا قد بڑا محسوس کرتے ہیں۔آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو ہم میں ختم ہوگئی ہے۔ہم صرف دوسرے کی ٹانگ کھینچنا اور اسے نقصان پہنچانے کو ترجیح دیتے ہیں۔کسی کو ترقی کرتا دیکھیں تو ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ہم میں سے کوئی یہ بات فخر سے بیان نہیں کرے گا کہ فلاں پاکستان کا امیر ترین آدمی ہے اور وہ اتنا ٹیکس دیتا ہے بلکہ ہم اس کا منفی عمل تلاش کرکے اس کے خلاف مہم کو ترجیح دیں گے۔
قصور واقعہ کو ہی دیکھ لیں۔وزیراعلیٰ پنجا ب پر بھرپور تنقید ہوئی کہ زینب کا قاتل گرفتار نہیں ہورہا۔پھر اس بات پر تنقید ہوئی کہ وزیراعلیٰ رات بھر سو کیوں نہیں سکے؟ پھر اس پر تنقید ہوئی کہ وہ صبح صبح زینب کے گھر کیوں چلے گئے؟ جب قاتل گرفتار ہوگیا اور وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس میںمحنت اور لگن سے کام کرنے والے نوجوانوں کو شاباش دی تو اس پر تنقید شروع ہوگئی کہ پہلے تالیاں کس نے بجائیں؟ اب تک کسی نے یہ بات نہیں کی کہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں یکے بعد دیگرے چار پولیس مقابلے ہوچکے ہیں مگر تحقیقات جوں کی توں ہیں،خیبر پختونخواکی "مثالی پولیس" اپنے صوبے میں ہونے والے زیادتی کے کیسز کی تحقیقات مکمل نہیں کرسکی مگر کوئی بات نہیں ہورہی۔تنقید صرف کام کرنے والے شخص پر ہوتی ہے۔کسی نے اس پر تعریف کی زحمت نہیں کی کہ شہباز شریف نے زینب کے قاتل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے قصور کے متعدد دورے کئے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے روزانہ ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی تفتیش اور جے آئی ٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔پنجاب حکومت نے ہی مردم شماری تک کا ڈیٹا جے آئی ٹی کو فراہم کیا۔ڈی این اے نمونے لئے گئے۔اگر ایک پولیس افسر عمر سعید نے جیکٹ کے بٹنوں کی مدد سے ملزم کو ٹریس کیا اور پھر ڈی این اے نے مہر تصدیق ثبت کردی تو یہ بھی پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ کی کیس سے متعلق سنجیدگی ہے کہ انہوں نے آئی جی پولیس سے صوبے کا بہترین تفتیشی تلاش کرنے کا کہا ،جس کا ایسے کیس میں تجربہ ہو۔ڈی پی او وہاڑی عمر سعید نے میلسی میں اسی نوعیت کے واقعہ میں آٹھ دنوں میں ملزم گرفتار کیا تھا۔اس لئے وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ڈی پی او وہاڑی کو سب کچھ چھوڑ کر قصور جانے کا کہا گیا اور 14دن تک یہ افسران قصور میں موجود رہے۔تنقید سے ہٹ کر ہمیں عمر سعید و دیگر پولیس افسران کو شاباش بھی دینی چاہئے ۔پنجاب پولیس پر تنقید تو بہت ہوتی ہے مگر اسی پنجاب پولیس میں عمر سعید جیسے محنتی اور ذہین افسران بھی موجود ہیں۔واہ رے میرے Unsung Hero۔گزشتہ رات جنگ کا مقامی نمائندہ بتار ہا تھا کہ اس افسر نے گزشتہ ایک سال میں وہاڑی میں وہ کام کیا ہے جو وہاڑی پولیس کی 70سالہ تاریخ میں نہیں ہوا۔پنجاب کے کسی ضلع میں ضلعی پولیس کی ایسی کارکردگی نہیں ہے جو وہاڑی میں نظر آتی ہے۔مقامی میڈیا کی مصدقہ رپورٹس کے مطابق پولیس سروس آف پاکستان کا یہ افسر گزشتہ ایک سال سے روزانہ 12سے 2بجے تک کھلی کچہری لگاتا ہے اور کھلی کچہری کے لئے ڈی پی او آفس میں باقاعدہ ہال تعمیر کیا گیا ہے۔ہر تھانے میں ضلعی پولیس نے اپنے فنڈ سے ویٹنگ روم تعمیر کیا ہے۔ضلع کے مختلف تھانوں میں 37سے زائد کھلی کچہریاں لگائی گئی ہیں۔ہر تھانے کی حد تک ضلعی پولیس نے اپنے ذاتی فنڈ سے سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔ان کیمروں کی رسائی حوالات تک دی گئی ہے تاکہ غیر قانونی تحویل کاسلسلہ بند ہو۔ضلع میں فری لیگل ایڈسروس،ہیومن رائٹس سیل اور بہت کچھ۔جو کچھ ایک گریڈ 18کے ڈی پی اونے ضلع وہاڑی کی قسمت بدلنے کے لئے کیا ہے ،اگر تمام افسران اس عزم کااعادہ کرلیں تو مسائل کے حل میں آسانی ہوسکتی ہے۔وہاڑی کے ڈی پی او کا ذکر زینب کیس کی وجہ سے آگیا،وگرنہ یہ Unsung Heroیونہی گمنامی میں نوکری کرکے چلا جاتا۔پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہئے کہ ایسے افسران کی معقول حوصلہ افزائی کرکے ان سے مزید بڑے کام لیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے رویوں سے منفی سوچ نکال کر دن کو دن اور کوے کو کالا ہی کہیں۔تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئےنہ کہ تنقید برائے تنقید۔

تازہ ترین