• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام !قصور، کراچی اور مردان سے نیا سال شروع ہوتے ہی جو اندوہناک خبریں آئی ہیں اور ان کے فالو اپ میں اب جو کچھ میڈیا سے بے نقاب ہو رہا ہے، کیا یہ انتہائی تشویشناک صورتحال بحیثیت فرد خاندان اور قوم کے ہم سے اس امر کا تقاضا نہیں کر رہی کہ ہم روز مرہ اور معمول کی دنیاداری جس کی صورت بگڑتی ہی جا رہی ہے کے بارے میں پوری سنجیدگی سے غور کریں کہ ہمارا معاشرہ اور اس کے ساتھ ہم کدھر کا رخ اختیار کرتے ہوئے کسی بڑی تباہی کی طرف تو مائل نہیں ؟ جس کے امکانات واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں ، عمرے حج کرتے ہیں روزے رکھتے اور زکٰوۃ بھی دیتے ہیں۔ملک بھر میں مساجد اور مدارس لاکھوں کی تعداد میں ہیں جو الحمدللہ آباد ہیں، لیکن صورتحال یہ ہے کہ اس سب کے مقابل اور متصادم جو بھی کچھ منفی اور مائل بہ شیطان ہے، وہی معاشرے میں سرایت کرتا غالب ہو رہا ہے حتیٰ کہ دین داری میں لپٹی مکاری و عیاری بھی جگہ جگہ ہو رہی ہے ۔دھوکہ ،فریب گلی محلے اور گائوں گوٹھ کی سطح کے ذرائع آمدن سے لے کر ہمارے بین الاقوامی کاروباری معاملات میں بڑا انحصار بن چکا ہے۔ دوشہریوں کی روزمرہ گفتگو سے لیکر منتخب ایوانوں تک میں جھوٹ عام بولا جا رہا ہے۔ ہمارے مجموعی سیاسی ابلاغ میں جھوٹے وعدوں و قسموں اور ووٹرز کو بیوقوف بنانے، الزام تراشی اور دھونس دھمکیوں کا غلبہ ہے۔ شہری زندگی کے جن اصولوں اور قوانین کی پیروی معاشرے کو معاشرے کے طور پر برقرار رکھنے کے لئے ناگزیر ہے ، ان کو اپنی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں اختیار کرنا بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔ آج پاکستان اپنی سماجی، سیاسی پسماندگی کی اس انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ ہم موٹر سائیکل و کار بھی اپنی مرضی سے اپنے من کے مطابق چلانا چاہتے ہیں اور چلا رہے ہیں اور حکومت اور منتخب ایوانوں میں بھی گلی محلے میں کمیونٹی کا اتحاد، سانجھا پن باہمی محبت و احترام اور مشترکہ مفادات کے لئے مشترکہ جدوجہد کا جذبہ و شعور ناپید ہو رہا ہے اسے سنبھالا دینے اور آگے بڑھانے کے لئے آئین پاکستان میں عوام دوست مقامی حکومتوں کے نظام کی جو راہ متعین کی گئی ہے ،آئین و جمہوریت کے جھوٹے علمبردار حکمرانوں نے خود منتخب ہو کر حاکم بن کر ان کا راشتہ ہمیشہ بند رکھا اور اس کے مقابل تھانہ کچہری کا موجودہ عوام مخالف ایسا نظام تشکیل دیا جو ہر دور کے منتخب سول حکمرانوں کی سیاسی طاقت اور ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا آ رہا ہے ، جس کے نتیجے میں عوام الناس کے لئے انصاف ناپید ہوگیا، انصاف کے حصول کی تمام راہیں بند کرکے رشوت اور سفارش کا ایسا نظام بدتشکیل دیا گیا ہے جس میں تھانہ، کچہری اور بظاہر روزمرہ عوامی خدمات کے ادارے انہیں ہراساں کرنے، رشوت بٹورنے، عوام کی کھلی تذلیل، سفارشوں سے اپنی اہمیت بڑھانے حتیٰ کے ظلم وجور کے ادارے بن کر رہ گئے ہیں۔
امرواقع یہ ہے کہ آج پاکستان بھر میں گھر گھر انصاف کی دہائی مچی ہوئی ہے دوسرا یہ کہ انصاف کس سے مانگیں؟ انصاف دینے کے ذمے داروں نے ہی تو چھپنا ہے، سو عالم بے بسی میں اپنے مظلوم ہونے کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کسی بھی ریاست کے استحکام اور سلامتی تک کے لئے خطرہ بن جاتا ہے، تبھی تو جنگ عظیم دوم کے دوران لندن پر جرمنوں کی تباہ کن بمباری کے دوران وزیر اعظم چرچل شہریوں کی تشویش پر ان ہی سے تصدیق یہ کرکے مطمئن رہا (اور شہریوں کو مطمئن کیا) کہ برطانوی عدالتیں صحیح کام کر رہی ہیں، اور فراہمی انصاف کا معمول متاثر نہیں ہے برطانوی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
آج جب پاکستان میں شہر شہر پولیس اور کچہریوں کے اکھڑ، راشی، جاہل اور عوام پر ظلم و استحصال کا کوئی موقع نہ چھوڑنے والوں کی عوام دشمنی کی داستانیں میڈیا میں جگہ بنانے لگی ہیں، تو حاکموں کے جھوٹے اور مکارانہ بیانیوں کے مقابل، مظلوم عوام کا بیانیہ بھی عام ہونے لگا ہے جو تازہ ترین واقعات میں زینب، عاصمہ، نقیب محسود اور انتظار کے خون سے لکھا گیا ہے، جسے میڈیا نے پڑھا اور پورے پاکستان کو پڑھا دیا یہ کہ ’’ہمیں انصاف چاہئے، لیکن کس سے مانگیں؟ دینے والوں نے ہی تو ہمیں انصاف کا طالب بنایا ہے ‘‘ ملک بھرکے مظلوم عوام کے اس بیانیے پر غور فرمائیں۔یہ صورتحال بہت الارمنگ ہے خصوصاً ایسے میں جب پاکستان کو سلامتی کے ایسے خطرے درپیش ہیں جو پہلے کبھی نہ تھے ۔
عوام کی جانب سے انصاف کی دہائی اور حکمران طبقے کی طرف سے ’’آئین کے مکمل اورقانون کے یکساں نفاذ‘‘ کے شروع ہوئے احتسابی عمل کے خلاف جھوٹے نعروں اور بیانیوں سے کھلم کھلا مزاحمت، جمہوریت اور سماجی پسماندگی کے زور پر ابھرتی ملوکیت کی ایسی کشمکش ہے جس کو الیکشن 18کے نتائج آگے بڑھائیں گے جس کے نتیجے میں انشااللہ حقیقی جمہوریت کے امکانات بڑھیں گے یا خاکم بدہن ملوکیت کے مذموم عزائم غلبہ پاکے پاکستان کو نئے خطرات سے دوچار کریں گے ۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں پہلے عشرے کے بے آئین دور میں جاگیرداری اور افسرشاہی کے گٹھ جوڑ سے جو مارشل لاء برآمد ہوا تھا جس میں فرد واحد سے آئین نے پھر تباہ کن مارشل ہی نکلا اور ملک ٹوٹنے کے بعد بھی پاکستان کے حاصل ہونے پر سول آمریتوں اور من مانی اور خاندانی حکمرانی کے ادوار نے پھر مارشل لائوں کی جگہ بنانے کی جو تباہ کن تاریخ بنائی اس سے وہ سبق پڑھ لیا جائے جو شدت سے مطلوب ہے اور پڑھ کر پاکستان کو احتساب و انصاف کے لازمے والی آئینی جمہوریت کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے جس کی عملی شکل ’’آئین کا مکمل اور قانون کا مکمل انصاف سے یکساں نفاد‘‘ ہی ہے۔ سردست اس میں اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا نے ہی اہم ترین کردار ادا کرنا ہے ۔

تازہ ترین