• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی صورتحال اس ملک میں اگرچہ گزشتہ کئی سالوں سے کافی بگڑ چکی ہے ۔ سیاسی گٹھ جوڑ اپنے عروج پر ہے ساتھ ساتھ پاکستان میں صوبے بڑھانے کیلئے اکثر آوازیں ابھرتی رہی ہیں ۔ خصوصاًپنجاب میں سرائیکی صوبہ ، پختونخوا میں ہزارہ صوبہ،فاٹاصوبہ اور اب پھر سے سندھ میں کراچی صوبے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک میں اتنے تجربات ہوئے ہیں کہ جس کی مثال کسی اور ملک میں نہیں ملتی مثلاً پہلے ہی پاکستان سمندروں میں بٹا ہوا ملک ملا جس کو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہتے تھے ۔ پھر ہمارے سیاست دانوں نے ان کے صوبوں کو الگ الگ ملا کر ون یونٹ بنا ڈالا جس سے صرف 2 صوبے رہ گئے اس کے پیچھے کیا کہانی تھی وہ آج تک صیغہ راز ہے ۔ پھر پہلا مارشل لالگا ایک دارالحکومت ڈھاکہ بھی بنا دیا گیا۔ دوسرا مارشل لا لگا تو یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر دوبارہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے صوبے بحال کر دیئے ۔ الغرض یہ بھی نظام پاکستان کو راس نہیں آیا اور انہی کے فوجی دور میں ملک ٹوٹ گیا ۔ اب صرف مغربی پاکستان اور صرف نیا پاکستان بن گیا ۔ اب اس کے 5 صوبے تھے کہ نئے پاکستان میں کراچی صوبے کی آوازیں بلند ہوئیں مرزا جواد بیگ اس آواز کے روح رواں تھے مگر آوازیں دبا دی گئیں ۔سارا مرکزی نظام اسلام آباد پہنچا دیا گیا ۔ مگر ان صوبوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا گیا کہ دنیا میں نئے صوبوں کا نظام کیوں لایا جاتا ہے ۔ ماضی میں ضیا ء الحق نے بھی اس پر تجربہ کرنا چاہا تھا اور ایک کمیشن انصاری صاحب کی سربراہی میں تشکیل دیا تھا اس انصاری کمیشن نے اپنی حتمی رائے میں سفارش کی تھی کہ ہمارے ملک کو ڈویژن کی بنیاد بنا کر اس کو صوبوں میں تبدیل کر دیا جائے ۔ غالباً اس وقت 18ڈویژن ہوتے تھے ۔ ضیاء الحق اس پر آمادہ تھے اور وہ اعلان متوقع تھا کہ ان کے جہاز کا حادثہ اس منصوبے کو اپنے ہی ساتھ لے کر تباہ ہو گیا ۔ پھر سرائیکی صوبے والے بھی غل مچا کر خاموش ہو گئے کہتے ہیں پنجاب والوں نے انہیں ابھرنے نہیں دیا ۔ پھر چند سال قبل ہزارہ صوبے کا شور بھی بلند ہوا اور وہ آج خانپور کے ڈیم میں ڈوبا ہوا ہے پھر اچانک بلتستان کا صوبہ جس کا کوئی شور بھی نہیں ہوا تھا بنا کر بلتستان کے عوام کو حیران کر دیا گیا ۔ راقم نے سوال کیاتھا کہ صوبے کیوں بنائے جاتے ہیں اور آج تک سوائے پاکستان کے ہر ملک میں نئے نئے صوبے وجود میں آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے مثلاً قیام پاکستان کے وقت بھارت میں صرف 13صوبے تھے آج 28صوبے اور 7یونٹ (آزاد ) ہیں ۔ گویا 35صوبے ہو چکے ہیں کیونکہ گزشتہ 60سال میں بھارت کی آبادی دگنی ہو چکی ہے مگر صوبے 4گنا بنائے گئے ہیں ۔ صوبوں کے بنانے میں عوام کی مشکلات کو حل کرنے کا عنصر سب سے نمایاں ہوتا ہے ۔ عوام کو جگہ جگہ دور دور جانے کے بجائے اپنے ہی علاقے میں ہر چیز میسر آ جائے اور خصوصاً انتظامی معاملات بڑے بڑے شہروں میں بہت گمبھیر ہو تے ہیں ۔ اس لیے شہروں کو صوبوں کا درجہ دے کر وہاں کے عوام کو مشکلات سے نکالا جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے ہم ڈسٹرکٹ کی سطح تک تو مانتے ہیں ، ڈویژن بھی بڑھا دیتے ہیں مگر صوبوں کے نام سے ہمیں پاکستان کمزور یا ٹوٹتا نظر آتا ہے ۔ پھر ہمارے ہاں آبادی کے لحاظ سے ایک صوبہ پنجاب بہت بڑا ہے ۔ اتنا بڑا ہے کہ جس میں بقایا 3صوبوں کی آبادی سمٹ آتی ہے مگر رقبہ کے لحاظ سے بلوچستان پورے ملک سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے کم ہے ۔ اسی طرح سندھ معاشی لحاظ سے 65فیصد مرکز کو ریونیو دیتا ہے جس میں صرف کراچی کا 97فیصد حصہ بنتا ہے ۔ اور پورے سندھ کی آبادی کا صرف ایک تہائی ہو تا ہے ۔ اس فرق کو بقایا سندھ اپنا حصہ منوا کر کراچی پر حکمرانی کرتا ہے جس کی وجہ سے آج تک صوبہ سندھ کا وزیر اعلیٰ اردو بولنے والوں کا نہیں آ سکا اور ہمیشہ اندرون ِ سندھ آبادی کی وجہ سے اس کے حصے میں آیا ۔ البتہ اس کا ازالہ گورنر سندھ بنا کرکر دیا جاتا ہے جبکہ اس صوبے میں اردو بولنے والے ،پنجابی بولنے والے اور پشتو بولنے والے اکثریت میں ہیں ۔ صوبہ بلوچستان میں ہمیشہ بلوچ وزیر اعلیٰ ہوتا ہے مگر آبادی میں بلوچوں کا دوسرا نمبر آتا ہے دیگر زبانیں بولنے والے پشتون، بروہی ، سندھی ، پنجابی سب مل کر اکثریت میں ہونے کے باوجود اپنا وزیر اعلیٰ نہیں بنوا سکتے ۔ یہی حال پنجاب میں ہے سرائیکی علاقے ابھی تک اپنے حقو ق نہیں منوا سکے ۔ پختونخوا صوبے میں بھی اکثریت اب غیر پختونوں کی ہے مگر گورنر اور وزارت ِ اعلیٰ صرف پختونوں کے حصے میں آتی ہے اور تمام انتظامی امور پر بھی انہی کی دسترس ہے ۔ پورے ملک میں صوبے نہ بڑھانے سے ایک طرف تو لسانی امور پر لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے علاقائی سیاست اور تعصب پیدا ہوتا ہے اگر آبادی کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ایک ایک شہر آبادی کے لحاظ سے اتنا بڑا ہو چکا ہے جتنا بڑا دنیا میں ایک ملک بھی نہیں ہے ۔ پھر اس کے مسائل حل کرنے کیلئے انتظامی امور بے کار ہو چکے ہیں اس لیے ہمارے مفکرین بِلا تعصب بیٹھ کر پوری دنیا کے نقشوں پر نظر ڈالیں ۔ آخر افغانستان جس کی آبادی صرف 3کروڑ 60لاکھ ہے اس میں 34صوبے کیوں ہیں ۔ ایران ساڑھے چھ کروڑ آبادی اس کے 34صوبے کیوں ہو چکے ہیں ۔ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا جس کی آبادی 25کروڑ ہے اس کے 30صوبے کیوں بن چکے ہیں ۔ امریکہ دنیا کا سب سے مضبوط ترین ملک جس کی آبادی 32کروڑ ہے اور اس کے 51صوبے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ جس کی آبادی صرف 65لاکھ (ایک تہائی کراچی کی آبادی ) ہے اس کے 26صوبے ہیں ۔
چائنا آبادی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے اس کی ڈیڑھ ارب آبادی ہے اس ملک کے بھی 34صوبے ہیں ۔ الغرض دنیا کے 201ممالک کی فہرست میں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے صرف 4صوبے ہیں اور آبادی کے لحاظ سے وہ پانچویں نمبر پر اور مسلم ممالک میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اور ہمارے ملک میں نئے صوبے کی بات کرنے سے اس صوبے کے عوام کے جذبات بھڑک جاتے ہیں ۔ نہ جانے کب تک ہم اس سوچ میں ڈوبے رہیں گے کہ صوبے بڑھانے سے پاکستان کمزور ہو جائے گا ۔ان دنوں فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے کے بجائے اُس کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے پر شور ہورہا ہے۔اور خیبر پختونخوامیں اُس کو ضم کرنے میں گورنمنٹ دلچسپی رکھتی ہے مگر چند سیاسی رہنما اُس کو ضم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔میرے خیال میں تو اُس کو علیحدہ صوبے کا درجہ دینا چاہیے ۔لیکن گورنمنٹ کی سوچ یہ ہے کہ اگر اُس کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا تو باقی صوبے بنانے کی داغ بیل پڑ جائے گی جوکہ حکومت پاکستان نہیں چاہتی ۔

تازہ ترین