• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس میاں ثاقب نثار ایک متحرک چیف جسٹس ثابت ہوئے ہیں جو عدالتی نظام کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ عوامی مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرانے کیلئے سر گرم ہیں۔ہفتے کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ڈبے میں مضر صحت دودھ فروخت کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران کراچی اور حیدر آباد میں فروخت ہونے والے ڈبے کے دودھ کے لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ۔ جس کا دو ہفتے قبل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے حکم دیا تھا۔پیش کی گئی رپورٹ میں چار کمپنیوں کے دودھ میں کیمیکل استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا۔اس رپورٹ کی روشنی میں اِن چار کمپنیوں کے ڈبے کے دودھ پر فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ ایک کمپنی پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔بنچ نے ٹی وائٹنر بنانے والی کمپنیوں کو ڈبے پر ’’یہ دودھ نہیں ہے‘‘ واضح طور پر تحریر کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔سماعت کے دوران ڈبے کا دودھ بنانے والی کمپنیوں کے وکلاء نے عدالت سے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ عوام کو غیر معیاری دودھ فروخت کر کے عوام کے پیسے اور صحت کی بربادی کے مر تکب ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس کا جعلی دودھ بنانے والے مافیا کے خلاف اقدام لائق تحسین ہے ، مگر ملاوٹ کا یہ سلسلہ محض چند شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔جنوری 2016ء میں بھی دس کمپنیوں کے ڈبا دودھ کی فروخت پر ناقص اور غیر معیاری ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی تھی ، مگر وہ کمپنیاں آج بھی عوام کو زہریلا دودھ فروخت کر رہی ہیں۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ وقتی پابندیوں کے بجائے تمام صوبوں میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ فوڈ اتھارٹیاں قائم کی جائیں، جو ایسے ملاوٹی مافیا کا ملک بھر سے قلع قمع کر سکیں۔

تازہ ترین