• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 2018ءکو عام انتخابات کا سال قرار دیا جارہا ہے، اللہ کرے ایسا ہی ہو، مگر جس طرح روزانہ کی بنیاد پر مختلف شعبوں میں حالات اور واقعات بدل رہے ہیں اس سے انجانا سا خوف ضرور ہے کہ پتہ نہیں کل کیا ہو۔ بہرحال ہم ذاتی طور پر عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حامی ہیں اور اس بات کو بھی سپورٹ کرتے ہیں کہ ملک میں مختلف رنگوں پر مشتمل جمہوریت یا جمہوری نظام بھی چلتا رہنا چاہئے۔ حکومتی سطح پر تو عام انتخابات کی مہم اور تیاریاں بہرحال جاری ہیں اس پس منظر میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف آج کل خادم اعلیٰ پنجاب کے عہدہ کو بھول کر خادم اعلیٰ اسلام آباد بننے کے سہانے خواب دیکھ رہے ہیں، دنیاوی زندگی میں خواب دیکھنے یا ایسی خواہشات کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ہونا بھی نہیں چاہئے مگر مسلم لیگ (ن) کے اندر اور حکومتی سطح پر کئی اور چیزیں بھی آنے والے دنوں میں سامنے آرہی ہیں۔
اس سے ممکن ہے کہ خادم اعلیٰ اسلام آباد کا خواب ادھورا رہ جائے اور مسلم لیگ (ن) کو پنجاب بچانا بھی مشکل ہوجائے۔ یہ سب بظاہر قیاس آرائی پر مبنی سوچ ہے مگر سیاست میں سب کچھ چلتا ہے۔ آج حکومت کے حق اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی خوشامد میں نعرے لگانے والوں کو کل کسی اور کے لئے بھی نعرے لگانے پڑسکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ میاں شہباز شریف جو پنجاب میں ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں، انہیں اس کا بڑا شوق بھی ہے کہ انہیں انتظامی طور پر بہترین شخصیت تسلیم کیا جائے لیکن اگر انہیں آزاد حیثیت میں ووٹ لینے پڑیں تو لگ پتہ جائے کہ سیاست اور ووٹ کی کیا اہمیت ہے۔
ایک صوبے کو چلانا ازحد آسان ہے اور وہ بھی اپنے بھائی میاں نواز شریف کی سرپرستی میں ایک صوبے کی بجائے وفاق کو چلانا مختلف تجربہ ہے اور بڑا مشکل کام ہے۔ وہاں پر کسی کو سرزنش کرکے یا سخت زبان استعمال کرکے کام نہیں چل سکتا، پھر امریکہ اور بھارت سمیت دنیا کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے کے لئے وہ صلاحیتیں پیدا کرنا ضروری ہیں جو وفاق اور ریاست کی ضرورت ہو، وہاں جذبات سے نہیں فہم و فراست سے کام لینا پڑتا ہے پھر 2018سے 2025کے درمیان پاکستان بین الاقوامی سطح پر معاشی نقطہ نظر سے خاص اہمیت حاصل کرنے والا ہے۔ امریکہ، روس اور چین سمیت دنیا میں پاکستان کو معاشی فوائد حاصل کرنے کے لئے بہترین مواقع ملنے والے ہیں اور ایسے نظر آرہا ہے کہ شاید پاکستان کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے سب ممالک ہی فعال ہوجائیں مگر اسی صورت میں پاکستان کے پاس کوئی ایسی قیادت ہوگی جو نہ تو متنازع ہو اور نہ ہی اس کے مالی اور دیگر معاملات کے وہ جرائم ہوں جس سے پاکستان کا امیج بڑا خراب ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ سیاسی حالات میں استحکام کے ساتھ اعلیٰ حکومتی منصب سنبھالنے اور ریاست کا نظام چلانے کی اہمیت ان سب کاموں کے لئے پولیٹیکل مارکیٹنگ کی صلاحیت کس کے پاس ہے۔ فی الحال تو کسی بھی سیاسی سطح پر کوئی ایسی صورتحال نظر نہیں آتی جس پر اطمینان کا اظہار کیا جاسکے۔اس لئے سیاسی جماعتوں کو 2018 کے متوقع انتخابات کے پس منظر میں اپنے قائدین کا انتخابات سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا ورنہ گلوبل سطح پر پاکستان کو معاشی فرنٹ پر جو فوائد ملنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں وہ ہماری اندرون سیاست کے اختلافات اور قومی امور پر عدم دلچسپی کے باعث معدوم ہوسکتے ہیں، اس لئے خواہشات کی سیاست کے بجائے میچور سیاست کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے جس کے لئے پاکستان کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے آئندہ نمائندوں کا انتخاب کریں ورنہ اس بار انہیں اپنے کئے جانے والے فیصلوں کی سزا پہلے سے بھی زیادہ مل سکتی ہے۔

تازہ ترین