• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی طرف سے 24 جنوری کو فاٹا کے ضلع ہنگو کے علاقے سپن تال میں ڈرون حملہ کیا گیا جس میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر احسان اللہ عرف خورئے کے ساتھی سمیت مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ پاکستان کی حدود کے اندر کئے گئے اس ڈرون حملے پہ حکومت پاکستان اور امریکی انتظامیہ کے درمیان جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے اور دونوں اطراف سے اس ڈرون حملے کے بارے میں متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کی طرف سے یہ ڈرون حملہ انفرادی ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر نہیں بلکہ افغان مہاجرین کے کیمپ پہ کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے افغان مہاجرین کے کیمپوں کا نقشہ بھی جاری کیا گیا جس میں واضح بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے 54 کیمپس اور کمپلیکس موجود ہیں ،ان میں سے 43کیمپ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں واقع ہیں جبکہ جس کیمپ پہ ڈرون حملہ کیا گیا وہ بھی ہنگو میں قائم کیمپوں میں شامل ہے۔ ترجمان مسلح افواج کا کہنا ہے جس انفرادی ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے ڈرون حملہ کیا گیا وہ افغان مہاجرین میں گھل مل چکا تھا جس سے پاکستان کے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ دہشت گرد آسانی کیساتھ افغان مہاجرین میں شامل ہو جاتے ہیں اسلئے عالمی برادری پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی جلد از جلد باعزت واپسی کے لئے کردار ادا کرے۔ ترجمان مسلح افواج نے یہ بھی زور دیا ہے کہ پاکستان پر امن افغان مہاجرین کی برسوں سے میزبانی کر رہا ہے ،دہشت گرد پاکستان کے افغان مہاجرین کے ساتھ اس حسن سلوک کا غلط استعمال نہ کریں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی ہنگو میں کیے گئے امریکی ڈرون حملے کو غیر قانونی اور عالمی قوانین کی خاف ورزی قرار دیتے ہوئے یہ بھی باور کرایا کہ ایسی کارروائیاں پاک امریکہ تعلقات پہ منفی اثرات مرتب کرتی ہیں،پاکستان اپنی سلامتی سے کسی طور غافل نہیں ہے،امریکہ دہشت گردوں کے خلاف معلومات فراہم کرے پاکستان خود کارروائی کرے گا۔ کرم ایجنسی میں حالیہ ڈرون حملے پہ پاکستان کے سخت رد عمل پہ امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے کسی بھی ڈرون حملے کی سرے سے تردید کر دی اور کہا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے دیا گیا بیان غلط ہے امریکہ نے کوئی ڈرون حملہ نہیں کیا۔ امریکی بیان کے جھوٹ پہ مبنی ہونے کیلئے مقامی آبادی،میڈیا اور پولیٹکل ایجنٹ کی ڈرون حملے کی تصدیق ہی کافی ہے لیکن یہاں معاملہ ڈرون حملے کا نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی حدود کے اندر حالیہ ڈرون حملہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے اور نہ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ اس وقت اصل معاملہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ڈو مور کے منترا کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کشیدہ ہو تے جا رہے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب پاکستان امریکی ڈرون حملوں کے بعد موقف اختیار کرتا تھا کہ یہ پاکستان کی حدود کے اندر نہیں بلکہ افغانستان کے علاقے میں کیا گیا ہے جبکہ افغانستان اسے پاکستانی سرحد کی طرف کی گئی امریکی کارروائی قرار دیتا تھا۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ ڈرون آپریٹ کرنے والے ایسے کسی حملے کوماننے سے ہی انکاری ہیں اور پاکستان اسے اپنی حدود کے اندر افغان مہاجرین کے کیمپ پہ کی گئی کارروائی قرار دیتا ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لئے ڈرون حملوں کی نئی پالیسی کا آغاز کیا گیا اور پرویز مشرف کی طرف سے امریکہ کو شمسی ائیر بیس سمیت دیگر زمینی اورفضائی سہولتیں فراہم کرنے کے نتیجے میں جون 2004 میں پہلی بار پاکستان کی حدود میں کسی غیر ملک کو کارروائی کا اختیار مل گیا۔ ان ڈرون حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہریوں کی اموات بھی ہوتی رہیں ،یہاں تک کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جنازوں اور باراتوں پہ بھی ڈرون حملے کئے گئے جس میں درجنوں افراد ان دیکھی موت کا شکار ہوتے رہے۔ اس کھیل میں برابر کا شریک ہونے پہ جب آوازیں بلند ہوتیں اور کبھی کھار جب دبائو بہت بڑھ جاتا تو حکومت پاکستان کی طرف سے ان ڈرون حملوں کی مذمت کر دی جاتی ،اسے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف و رزی قرار دیا جاتا اور امریکہ کو عالمی قوانین کی پاسداری کرنے کادرس دیا جاتا جس کے بعد بات آئی گئی ہو جاتی۔ یہاں تک کہ امریکی انتظامیہ کے بعض نمائندے اور نیو یارک ٹائمز کے مارک مزیٹی جیسے صحافی برملا یہ کہتے رہے کہ پاکستان کی حدود میں امریکی ڈرون حملے حکومت پاکستان اور عسکری حکام کی مرضی اور اجازت سے شروع کیے گئے لیکن ان دعوئوں کی تردید کی جاتی رہی۔ وکی لیکس میں ایسی دستاویزات بھی سامنے آئیں جن میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ڈرون حملوں کا خفیہ معاہدہ ہے جس کے تحت عوام کو مطمئن کرنے کے لئے پاکستانی حکام ڈرون حملوں کے خلاف گاہے بہ گاہے بیانات جاری کرتے رہیں گے اور امریکی ڈرون واویلے کے باوجود پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتی رہیں گی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ دسمبر 2011 میں اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل امریکہ کے جدید ترین ڈرون نے ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی لیکن ایران نے اس ڈرون کو قبضے میں لے لیا تھا جس پہ امریکی انتظامیہ کی نیندیں اڑ گئی تھیں کیونکہ انہیں خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ ایران کہیں ڈرون طیاروں کی اس جدید ترین ٹیکنالوجی کا راز نہ پا لے۔ جس ملک نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو روکنا ہو وہ بیان دینے پہ اکتفا نہیں کرتا بلکہ کارروائی کرتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بجا فرمایا کہ انہوں نے امریکی صدر اوباما سے پاکستان میں ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن یہ بھی تاریخ ہے کہ ڈرون حملوں کے متعلق پاکستانی حکومتوں کے تضادات کا نتیجہ تھا کہ جب اکتوبر 2013ءمیں وہ بطور وزیر اعظم پاکستان امریکی صدر باراک اوباما سے وائٹ ہائوس کے اوول آفس میں ہونے والی نوے منٹ کی ملاقات میں ڈرون حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے عین اسی وقت واشنگٹن پوسٹ نے سی آئی اے کی دستاویزات کا حوالہ دے کر تحریر کیا تھا کہ پاکستانی حکام نے نہ صرف کئی برسوں تک ڈرون حملوں کی توثیق کی بلکہ انہیں ان حملوں میں مارے جانے والے افراد کے بارے میں بریفنگز بھی دی جاتی رہی ہیں۔ بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کے مطابق پاکستان میں سال 2004 سے اب تک تقریبا 429ڈرون حملے ہوچکے ہیں جن میں تقریبا پچیس سو سے تین ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق ان ڈرون حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت ساڑھے تین سو سے چار سو بیس افراد بھی مارے گئے ۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈرون حملے امریکی صدر اوباما کے دور اقتدار میں ہوئے۔ بیورو کے مطابق جارج بش کے دور حکومت میں پاکستانی سرزمین پہ 51 ڈرون حملے کیے گئے جبکہ اوباما کے دور میں ڈرون حملوں کی تعداد 373 تک جا پہنچی جوبش انتظامیہ کے مقابلے میں 631 فیصد زیادہ تھی۔پاکستان میں سال 2010ءمیں اوباما کے دور صدارت میں سب سے زیادہ 128 ڈرون حملے کیے گئے۔ فاٹا سے باہرکسی علاقے میں پہلی بار ڈرون حملہ بھی اوباما کے دور ہی میں بلوچستان میں مئی 2016 ءمیں کیا گیا جس میں افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور کو ہلاک کیا گیا تھا۔ امریکہ کا یہ بھی موقف ہے کہ نیک محمد سے لے کر بیت اللہ محسود تک تمام انتہائی مطلوب دہشت گرد انہی ڈرون حملوں میں مارے گئے ہیں۔ ٹرمپ کے دور اقتدار میں اب تک تقریبا پانچ ڈرون حملے ہو چکے ہیں، پاکستان ،افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق گزشتہ سال اگست میں ان کی طرف سے اعلان کردہ پالیسی کے بعد پہلا ڈرون حملہ ستمبر میں کیا گیا تھا جبکہ اب ان حملوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جسے اب پاکستان پہ دبائو بڑھانے کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ جس خاموش مفاہمت کے تحت 14 سال قبل امریکہ کو پاکستانی حدود کے اندر ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی تھی اب پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ صورتحال میں اسے یہ سب کرنے سے باز رکھنا آسان نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں سینیٹ کی ہول کمیٹی میں دی گئی ان کیمرا بریفنگ کے دوران عسکری حکام نے پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ پاکستان امریکی ڈرونز کو گرانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی صورت میں وہ امریکی ڈرون کو گرا بھی سکتا ہے لیکن امریکی ڈرون کو گرانے کے بعد کا منظر نامہ کیا ہو گا ،غور طلب بات یہ ہے۔ چنانچہ جسے اب یکطرفہ کارروائی کا نام دیکر ہم ایک بار پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ یک طرفہ کارروائی امریکہ گزشتہ چودہ سال سے جاری رکھے ہوئے ہے جسے جارج بش نے شروع کیا،باراک اوباما نے اسے انتہائی حد تک پہنچایا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ پر اسے فاٹا سے باہر آبادکار علاقوں تک وسعت دینے کا جنون سوار ہے۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ کبھی ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔

تازہ ترین