• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو تین خبریں نہ تو دماغ سے محو ہو رہی ہیں اور نہ ہی بے چینی ختم ہو رہی ہے ۔ ایک خبر کراچی سے بن قاسم کے علاقے عید و گوٹھ کی ہے کہ ایک دس سالہ بچے محمد حسین کو مدرسے کے معلم نے تشدد کر کے مار ڈالا۔دوسری خبر قصور سے زینب کے قاتل کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ یہ شخص اسی گلی کا رہائشی تھا ،اس نے فوری طور پر نہ صرف اعتراف جرم کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ اس سے پہلے بھی چھ بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر چکا ہے۔ ملزم عمران نقشبندی مذہبی تقریبوں میں نقابت بھی کرتا تھا وہ محافل کے دوران نعت خوانوں پر نچھاور کیے جانیوالے نوٹوں کو چوری کرتے ہوئے بھی متعدد بار پکڑا گیا ، اس نے لوگوں کو یہ تاثر دیا ہوا تھا کہ اُس پر جنّ آتے ہیں اور اس نے مذہبی لبادہ اپنی شیطانیت چھپانے کیلئے اوڑھ رکھا تھا تاکہ کسی کو اس پر شک نہ ہو سکے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک پریس کانفرنس میں اس کا پکڑا جانا پولیس کا بہت بڑا کارنامہ قرار دیا۔
تیسرا واقعہ تحصیل شبقدر میں پیش آیا جہاں ایک طالبعلم فہیم شاہ نے اپنے پرنسپل کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ۔ حقائق کچھ اسطرح سے سامنے آئے کہ گزشتہ دنوں فیض آباد راولپنڈی میں دیئے جانیوالے دھرنے میں ملزم فہیم شاہ نے شرکت کی اور کالج سے تین دن غائب رہا تو اسکی غیر حاضری لگائی گئی جس پر اُسے غصہ آیا کہ اُسے دھرنے کیوجہ سے غیر حاضر کیوں تصور کیا گیا ۔پرنسپل سے تکرار پر اس نے پرنسپل حافظ سریر احمد کو قتل کر دیا ۔حقائق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملزم نے کہا کہ پرنسپل نے تحریک لبیک کے دھرنے کو معمولی واقعہ قرار دیا ۔ پرنسپل توہین رسالت کا بھی مرتکب ہوا ہے۔ کلاس فیلوز نے یہ بھی بتایا کہ ملزم نے مبینہ طور پر اپنے اوپر مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا تھا ، اس نے ایک طالبہ کے نام سے جعلی فیس بک آئی ڈی بنا رکھی تھی جس سے وہ دوسرے طلبہ سے چیٹنگ کرتاتھا ۔
تینوں واقعات میں کسی نہ کسی طریقے سے ذاتی خواہشات کے لئے مذہبی لبادے کا استعمال کیا گیا ہے ۔ پہلے واقعہ میں مُدرس نے طالبعلم کوتشدد کر کے ہلاک کر دیا ۔ گو ایسے واقعات اسکولوں میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔اس پر ہمارے میڈیا نے سب معلموں کی درگت بنا ڈالی۔ اسی طرح قصور کے واقعہ میں ملزم عمران کی مذہبی شناخت کو اس انداز میں نمایا ں کیا گیا جیسے سارے نعت پڑھنے والے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ایسے کام کرتے ہیں۔ تیسرے واقعہ میں یہ بات نمایا ں کی گئی کہ طالب علم نے توہین رسالت پر پرنسپل کو قتل کیا جبکہ پرنسپل کا یہ کردار سامنے لایا گیا کہ اس نے دھرنے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ۔
اب زینب کیس کے حقائق کی طرف آجائیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی پریس کانفرنس کے بعد اگر تو یہ خیال ہے کہ پریس کانفرنس میں اپنے کارنامے پر تالیاں بجانے کے بعد ذمہ داری ختم ہو گئی تو خوش فہمی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اب تو تماشا شروع ہوا ہے اور سوشل میڈیا پر جس طرح کے انکشافات سامنے آرہے ہیں اگر سب کو سچ مان لیا جائے تو پھر حکومت پنجاب کی 21سالہ گڈ گورننس کے پول بھی کھل جاتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر سوشل میڈیا کی کریڈیبلٹی پر تحفظات رکھتا ہوں چونکہ نہ تو یہ جرنلزم ہے اور نہ ہی سچ کہ جس پر یقین کرنے کو دل چاہے۔ جس کے دل میں جو کچھ آتا ہے یا جسکو جس طرح کی معلومات ملتی ہیں وہ ہزاروں کے حساب سے فارورڈ کرنے پہ لگا ہوا ہے۔ کسی چیز کی نہ تو تحقیق کی جاتی ہے اور نہ ہی ضابطہ اخلاق کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اسلئے سوشل میڈیا کا سچ تو ہوسکتا ہے مگر اصل سچائی نہیں ۔ لیکن جب سوشل میڈیا کی خبروں کو الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا دے رہا ہے تو کچھ حد تک یقین کرنے کو دل کرتا ہے کیونکہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سب جھوٹ دے رہا ہو۔ اب زینب کیس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی معلومات پر کئی ایک چینل خصوصی پروگرام کر رہے اور انکی خبریں پرنٹ میڈیا پر بھی شائع ہو رہی ہیں۔ اسلئے ان پروگراموں میں جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ اُن میں کتنا سچ ہے یہ حکومت اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحقیقات کے بعد اصل حقائق عوام تک پہنچائیں، نہیں تو اس معاشرے میں نہ باپ بیٹے کا اعتبار رہے گا ، نہ ماں،بیٹی اور بہن، بھائی کے رشتے قابل اعتبار ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس معاشرے کو صحت مند معاشرہ کہہ سکتے ہیں ۔
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ زینب کے قاتل کو پولیس نے پکڑا مگر زینب کے والد کے حوالے سے تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملزم عمران کو پولیس نے نہیں ہم نے خود گرفتار کیا ہے۔ جتنی بھی معلومات پریس کانفرنس کے ذریعے میڈیا پر نشر ہوئی ہیں ، زیادہ تر کی متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں کہ ملزم عمران کوئی مستری وغیرہ نہیں ، نہ ہی یہ ذہنی مریض ہے بلکہ چلڈرن پورنوگرافک انڈسٹری سے تعلق والے ایک بہت بڑے مافیا کا انتہائی فعال رکن ہے ۔ یہ چیزیں بھی سامنے آئیں کہ ملزم عمران زینب قتل کیس سے پہلے بھی تین بار پکڑا گیا مگر بااثر شخصیت کے دبائو پر چھوڑ دیا گیا۔امید کی صرف ایک کرن سپریم کورٹ باقی ہے ۔ جہاں بے شمار حقائق جمع کرائے جارہے ہیں۔ اب خدشہ اس بات کا ہے کہ چونکہ ملزم عمران نے بہت اہم انکشافات بھی کیے ہیںتو ماورائے عدالت قتل کر کے اصل حقائق اور مجرموں کو بچایا جا سکتا ہے۔ اسلئے سپریم کورٹ کو اس کیس کی ذاتی نگرانی کرنی چاہئے۔ زینب کی جو پوسٹ مارٹم رپورٹ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف ایک شخص نے نہیں بلکہ کئی افراد نے کئی مرتبہ زیادتی کا نشانہ بنایا اور ملزم عمران کایہ بیان غلط ہے کہ زیادتی کے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد قتل کیا گیا ۔ اس کے پیچھے مافیا کی یہ کوشش ہے کہ چھ سات الزامات عمران نقشبندی پر لگانے سے کیس خراب ہو جائیگا، جب عدالتوں میںکوئی چیز ثابت نہیں ہو سکے گی تو مافیا بچ جائیگا۔ دوسری طرف یہ نئی بحث شروع کرا دی گئی ہے کہ سرعام پھانسی کا قانون بنایا جائے ۔ اسپیڈی کورٹ میں چلایا جائےجبکہ 1994ء میں سرعام پھانسی کے قانون کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے ۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اصل حقائق سامنے آنے چاہئیں ۔ عوام کا فوج اور سپریم کورٹ پہ اعتماد ہے اور امید ہے کہ یہ دونوں ادارے عوام کو مایوس نہیںکرینگے اورنہ ہی اس ریاست کیساتھ ہونیوالی کسی سازش کو کامیاب ہونے دینگے بلکہ اصل مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائیگی۔

تازہ ترین