لیاری ایکسپریس وے کا جو منصوبہ پندرہ سال پہلے ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز کراچی میں ٹریفک کے مسائل کے حل نیز بندر گاہ اور اندرون ملک سے تجارتی سازو سامان کی نقل و حمل کو تیز رفتار اور آسان بنانے کے لئے شروع کیا گیا تھا، گزشتہ روز اپنے دوسرے حصے کی تکمیل کے ساتھ پوری طرح مکمل ہوگیا اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ہاتھوں اس کا باقاعدہ افتتاح بھی عمل میں آگیا۔ 38کلومیٹر طویل یہ منصوبہ جس میں بیس پل اور چار انٹر چینج بھی شامل ہیں، شہری سہولتوں کے حوالے سے یقیناًایک اہم پیش رفت ہے۔ تاہم اس اہم منصو کے مکمل ہونے میں دس سال کی تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے اس کی لاگت پانچ ارب سے بڑھ 23ارب تک جاپہنچی۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں منصوبے کی تکمیل میں حائل دشواریوں کے حوالے سے وضاحت کی کہ تجاوزات کو ہٹانا اور راستے میں موجود بستیوں کے مکینوں کو متبادل جگہ فراہم کرنا مشکل کام تھا جس کی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت میں اضافے کی شکل میں قوم کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ لیکن فی الحقیقت اس تاخیر کا سبب محض یہ مشکلات نہیں بلکہ پچھلی حکومتوں کی جانب سے اس کی تکمیل میں خاطر خواہ دلچسپی نہ لینا بھی اس صورت حال کی ایک یقینی وجہ ہے لہٰذاموجودہ وفاقی حکومت ، سندھ کے موجودہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کو اس کا کریڈٹ دیا جانا انصاف کا تقاضا ہے۔ایم نائن موٹر وے کی تعمیر بھی آخری مراحل میں ہے جو کراچی کی ضروریات کی تکمیل میں انتہائی معاون ثابت ہوگی۔ موجودہ حکومت نے کراچی کی ترقی کے لئے پچیس ارب کا پیکیج دیا اور ملک میں 1700کلومیٹر طویل چھ لائنوں کی موٹر ویز کے منصوبے شروع کئے جو اسی دور میں مکمل ہونے والے ہیں جبکہ سی پیک کا انقلابی منصوبہ بھی مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بلاشبہ جمہوریت کا ثمر ہے جس کے نتیجے میں عوام اپنے تجربات کی روشنی میں قیادت کا انتخاب کرتے ہیں اور یوں ملک کو بتدریج اہل تر قیادت میسر آتی چلی جاتی ہے لہٰذا قوم کو جمہوری تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے پوری طرح پرعزم رہنا چاہئے۔