• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرت کا نظام تہہ در تہہ ہے اور اسے سمجھنے کے لئے گہرے مشاہدے، بصیرت اور طویل تجربے کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی انسان بہت کم سمجھ پاتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ساری زندگی غور کرنے کے باوجود انسان بمشکل میلوں پر محیط آئس برگ یا گلیشیئر کا صرف ایک ٹکڑا سمجھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ہاں مگر وہ لوگ جن کا باطن منور ہو اور جنہیں اللہ پاک اپنے خزانوں سے علم عطا کرتے ہیں ان کی نگاہ بہت کچھ دیکھتی اور سمجھتی ہے لیکن ان کے اظہار پر قدغن لگا دی جاتی ہے۔ جو عطا کرتا ہے وہی قدغن لگاتا ہے۔ یقین کیجئے یہ بھی ایک نہایت مشکل اور صبر آزما کیفیت ہوتی ہے کہ انسان بہت کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن بیان نہیں کرسکتا، بہت سے راز سمجھ رہا ہوتا ہے اور آنے والے واقعات کی فلم بھی نگاہ میں چل رہی ہوتی ہے لیکن راز فاش نہیں کرسکتا۔ راز فاش کر دے تو سزا ملتی ہے اور کبھی کبھی یہ سزا اتنی کڑی ہوئی ہے کہ اس سے یہ صلاحیت یا عطا کردہ علم چھین لیا جاتا ہے۔ اللہ اللہ اس سزا کا تصور کیجئے کہ جو انسان ہر لمحہ روشنی میں گزارنے کا عادی ہو اسے مستقل تاریکی اور اندھیرے میں دھکیل دیا جائے۔ گویا روحانی دنیا کے مسافر پابند ہوتے ہیں، ان پر بے پناہ پابندیاں اور کڑی شرائط لگا کر انہیں باطنی روشنی اور آسمانی علم عطا کیا جاتا ہے۔ جب تک انسان مجاہدات کے ذریعے اس جبر کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کا ظرف وسیع اور صبر پختہ نہیں ہوتا اسے کچھ بھی عطا نہیں ہوتا۔ روحانی دنیا میں عطا اور سزا ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مجھے ایک کامل ولی اللہ یاد آرہے ہیں جن کا وصال ہوئے عرصہ گزرا۔ اگرچہ وہ گوشہ نشین تھے لیکن میں کسی طریقے سے ان کے پاس پہنچ گیا۔ پھر ان سے محبت اور دل کا رشتہ قائم ہوگیا اور میں تواتر سے ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ یہ بھی عجیب رشتےہوتے ہیں کہ نہ ملاقاتی ملاقات کا مقصد بتاتا ہے اور نہ میزبان پوچھتا ہے کہ تم کیوں آئے ہو۔ دونوں اپنی اپنی بات دل میں رکھتے ہیں لیکن فقیر کی نگاہ چونکہ قلب پر ہوتی ہے اس لئے اسے آنےوالے کی ایک ایک کیفیت، سوچ او رخواہش کا علم ہوتا ہے۔ میں ان کے پاس کئی سال تک جاتا رہا۔ بہت ہی متواضع تھے۔ دنیا جہاں کی باتیں ہوتیں لیکن انہوں نے کبھی نہ پوچھا کہ آپ میرے پاس کیوں آتے ہیں۔ میں بھی ان کی بظاہر بہت سی ایسی سرگرمیاں دیکھتا جن سے تجسس پیدا ہوتا لیکن خاموش رہتا اور سوال کرنے کی ہمت نہ پاتا۔ اسی طرح کئی ماہ گزر گئے۔ ایک شام ہم صرف دونوں ہی تھے تو ان کے چہرے پہ اداسی سی چھا گئی۔ ان کا لب و لہجہ غم کے سانچے میں ڈھل گیا۔ تب انہوں نے ایک لمبی سی سانس لی اور کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب میرے پاس جتنے لوگ آتے ہیں وہ سب دنیاوی مسائل اور خواہشات کا بوجھ اٹھائے آتے ہیں اور دعا کے لئے کہتے ہیں۔ صرف آپ میرے پاس روحانیت کے لئے آتے ہیں صرف آپ.... میرا جی چاہتا ہے میں آپ کو بہت کچھ دوں کیونکہ آپ سرتاپا خلوص ہیں، آپ کی محبت سچی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب آپ نے آنے میں بہت دیر کردی۔ جب آپ آئے تو کسی لغزش کی بنا پر میں محروم ہوچکا تھا، مجھ سے روحانی روشنی چھن چکی تھی اب تو بس ایسا ہے کہ جب پیمانے کو الٹ دیا جائے تو تہہ میں معمولی سی تلچھٹ رہ جاتی ہے۔ بس اب صرف تلچھٹ رہ گئی ہے۔ یہ راز صرف آپ کو بتا رہا ہوں کیونکہ آپ جو مال لینا چاہتے ہیں وہ اس دکان میں موجود ہی نہیں ہے۔ میں ان کی بات سن کر خاموش رہا کہ یہی ادب کا تقاضا تھا۔ مگر مجھے بار بار خیال آتا کہ جس شخص کی سلطنت چھن جائے، اس کا اندرونی طور پر کیا حال ہوتا ہوگا، جس شخص سے روشنی واپس لے لی جائے وہ کتنے ذہنی و قلبی ابتلاء میں مبتلا ہوگا لیکن نہ بیان کرسکتا ہے نہ ظاہر کہ یہ اس دنیا کا قانون ہے۔ صبر اس عمارت کا پہلا ستون ہے۔ رضائے الٰہی کے حصول کا پہلا دروازہ ہی صبر ہے۔ صبر پختہ ہو تو یہ دروازہ کھلتا ہے۔
پکڑ اور خدائی پکڑ سخت ہوتی ہے لیکن دنیا داروں پر اتنی سخت نہیں ہوتی جتنی روحانیت کے مسافروں پر ہوتی ہے۔ روحانیت کے مسافروں کی معمولی لغزش پر پکڑ فوری طورپر نازل ہوتی ہے جبکہ دنیا والوں کی رسی دراز ہوتی رہتی ہے۔ میں نے اس حوالے سے بھی عجب مناظر دیکھے۔ دنیا والے ظلم و زیادتی کرتے رہتے ہیں لیکن اس پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ ان سے اعمال کا حساب قبر سے شروع ہوتا ہے اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ دنیا میں بھی بعض مظالم، زیادتیوں اور گناہوں پر پکڑ ہوتی ہے لیکن صرف ان کی جن کو عبرت کا نشان بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اللہ پاک ہر گناہ گار اور ہر ظالم و کرپٹ کو عبرت کا سامان نہیں بناتے لیکن قدرت جنہیں عبرت بنانا چاہتی ہے اول تو وہ گھنائونے جرائم کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور قانون کی گرفت سے آزاد رہ کر ان کے دلوں سے خوف پوری طرح ختم ہو چکا ہوتا ہے تب قانون قدرت حرکت میں آتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ انسان نے جو ظلم ڈھایا ہے، اسی میں پکڑا جائے کیونکہ خدائی پکڑ کے مظاہر انسانی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں۔ سزا دینی کسی اور گناہ کی مقصود ہوتی ہے لیکن پکڑا کسی اور وجہ سے جاتا ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق معصوم انسانوں کا قاتل، معصوم بچیوں سے زیادتی اور انہیں قتل کرنے والا کسی نہ کسی دن پکڑا ضرور جاتا ہے اور یہ پکڑ اسے عبرت کا نشان بنا جاتی ہے۔ قومی خزانے لوٹنے والے، یتیموں کا مال کھانے والے، بیوائوں کی بے بسی سے فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے حق سے محروم کرنے والے اور شرک کا مسلسل ارتکاب کرنے والے قدرت کی پکڑ سے زیادہ دیر تک بچ نہیں سکتے۔ ایک نہ ایک دن کسی ایسے پھندے میں پھنس جاتے ہیں جو بظاہر پھندا بھی نہیں ہوتا۔ یتیموں کا مال کھانے والے ایک شخص کو میں نے ایسے مرض میں مبتلا دیکھا کہ وہ نہ زندوں میں نہ مردوں میں تھا۔ سارا جسم پھوڑوں سے بھر گیا تھا اور کئی برس سے بستر پہ پڑا موت مانگتا تھا لیکن موت اس سے روٹ گئی تھی۔ میں نے جابروں، ظالموں اور انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کا درجہ دینے والے مغرورحاکموں کو بھی عبرت کا سامان بنتے دیکھا۔ ایک ایسے ظالم جاگیردار کو دیکھا جس کے خوف اور دبدبے کے سامنے انسان دم نہیں مار سکتا تھا لیکن بڑھاپے میں اتنا معذور ہوا کہ اس کے اپنے خدمت گار اسے تھپڑ مارتے تھے اور دیکھنے والے اس خدائی پکڑ سے سکون پاتے تھے۔ مغرور اور متکبر کو اسی جہان میں عبرت کی علامت بنا دیا جاتا ہے کیونکہ تکبر شرک ہے اور شرک اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرتے۔ میں نے اسے چھوٹے بڑے حاکموں کو دنیا میں ہی ذلیل و خوار ہوتے دیکھا جو اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر انسانوں کو حقیر جانتے اور تکبر سے گردن اکڑائے رکھتے تھے۔ قصور کچھ اور تھا اور گرفت ہوئی کسی اور بات پر۔ جہاں دنیاوی نظام بے بس تھا وہاں قدرت کا نظام حرکت میں آگیا۔ سوچا جائے تو دنیا ایک عبرت کدہ ہے جہاں قدم قدم پر عبرت کے سامان سجے ہیں لیکن انسان نہ ان پر غور کرتا ہے نہ ان سے سبق سیکھتا ہے شاید اسی لئے تو کلام الٰہی کے مطابق انسان خسارے میں ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جو خسارے کا سودا کررہے ہیں انہیں اس بات کا علم اور احساس ہی نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ منافع کا کاروبار کررہے ہیں۔ دراصل دنیا کا منافع آخرت کا گھاٹا ہے۔

تازہ ترین