• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید دنیا کی ہر مہذب اور جمہوریت پذیر مملکت میں شہریوں اور حکام کو ’’قانون کے یکساں اطلاق‘‘ کے منصفانہ اور سنہری اصول پر فراہمی عدل کا واحد ذریعہ صرف اور صرف عدلیہ ہوتی ہے ۔آج کے زمانے میں کرہ ارض کے197ممالک میں خوش قسمت ترین وہ ہیں جو قومی اتفاق رائے سے بنے مخصوص آئین نے مکمل اختیاریت (ADOPTION)کے حامل ہیں۔ یہ ملک بمطابق آئین جمہوری ہیں ان میں شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی ہے جو منظم شکل میں میڈیا کی آزادی ہے۔ انتظامیہ کی مداخلت سے پاک، غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں قانون کا اطلاق بمطابق آئین سب شہریوں پر یکساں ہوتا ہے ۔بلند سیاسی شعور اور بھرپور قومی جذبے سے سرشار ان ریاستوں میں عوامی تائید وحمایت سے تشکیل حکومت بذریعہ عام انتخاب کے لئے آئین کے تابع آزاد، غیر جانبدار، ایمپاورڈ اور فعال و سرگرم انتخابی ادارہ (جیسے پاکستان میں نام کی حد تک الیکشن کمیشن آف پاکستان ) غیر جانبدار، آزاداور منصفانہ انتخابات کا ذمے دار ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں مکمل جمہوری کلچر اور اعلیٰ اقدار میں کام کرتی ہیں جن میں شخصی و خاندانی غلبے کا شائبہ تک نہیں ہوتا اور پارٹیوں کے اپنے آئین ،جمہوری عمل میں عوام الناس کی زیادہ سے زیادہ شرکت اور حکمرانی میں نمائندگی کے کھلے مواقع فراہم کرتے ہیں، گویا سیاسی جماعتیں زیادہ سے زیادہ پارٹیسپیٹری اپروچ حاصل کرتی ہیں۔پارٹی قائد، پارٹی آئین کے مکمل تابع اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں خود اسی اپروچ کو اختیار کرکے کامیاب ہوسکتا ہے ۔آل اولاد کو اپنی قائدانہ حیثیت کے زور پر سیاست میں اتارنے اور اوپر لانے کا کوئی تصور نہیں ۔ قانون ساز ادارے عوامی فلاح اور مملکت کو مستحکم کرتے رہنے میں اپنا کردار تسلسل اور انتہائی ذمے داری سے ادا کرسکتی ہیں۔
قارئین کرام! یہ ہیں وہ تمام لوازمات جو پورے ہوں تو مملکت جمہوری کہلاتی ہے۔الیکشن 18سے قبل ہم نے اسی فریم میں اس امر کا جا ئزہ لینا ہے کہ پاکستان کتنا جمہوری ہے ؟اور کن جماعتوں اور سیاسی قائدین میں مطلوب جمہوریت کے ان لوازمات کا کتنا پاس ہے ؟
بلاشبہ پاکستان میں اختتام پذیر جمہوریت کا عشرہ اس لحاظ سے بڑا حوصلہ افزا رہا کہ اس میں عدلیہ اپنے آئینی کردار کی طرف لوٹ آئی ۔میڈیا گورننس کی مانیٹرنگ اور آئین و قانون کی حکمرانوں کی جانب سے ہی خلاف ورزیوں کی بروقت اور مکمل بے نقابی کا کردار بڑی جرات اور سرگرمی سے ادا کرنے لگا ہے ۔کرپشن جتنی زیادہ ہے اب اتنی زیادہ ایڈریس بھی ہو رہی ہے ۔اسٹیٹس کو کے مارے سیاست دانوں نے میڈیا کے اس نئے کردار کو تبدیل اور محدود کرنے کے جتنے جتن کئے وہ سب ناکام رہے ۔آج میڈیا ، عدلیہ کے غیراعلانیہ معاون کے طورپر جو کردار ادا کر رہا ہے اس نے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی امید کے نئے چراغ جلائے ہیں ۔کرپشن اسکینڈلز میں لتھڑے ہمارے روایتی سیاسی حکمران اپنی ہی تیار کی گئی سماجی پسماندگی کی طاقت پر عدلیہ اور میڈیا کے اس کردار سے جان چھڑانے کی آخری تگ ودو کر رہے ہیں۔وہ ترقی کی آڑ میں آج بھی کرپشن کے ذرائع کے تحفظ کے لئے اپنی سی کوشش کر رہے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے عدالتی احکامات پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والے بلدیاتی اداروں کو منجمد کرکے دکھا دیا۔
ان کے نزدیک ترقی وہ ہے جو ان کے دماغ میں ہے وہ اس کی نشاندہی نہ عوام سے کرانے پر یقین کرتے ہیں نہ ان کی ضروریات کے مطابق کرنے پر۔
تھانہ کچہری کلچر عوام کی تذلیل کرنے میں آزاد نہ ہوتا اور جان ومال کا دشمن نہ بن جاتا۔ آئےروزکرپشن کی بڑی بڑی خبریں بنتی ہیں، ٹاک شوز ان سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن کوئی تردید نہ وضاحت نہ میڈیا کے خلاف قانونی کارروائی ، اس سب کا آخر کیا مطلب ہے؟ خاموشی، نیم رضامندی‘‘؟
اس پس منظر میں ن لیگ کے بظاہر ایک دھڑے نے جلسوں میں حاضرین کے ہاتھ اٹھوا کر انصاف کے حصول کی جو راہ اختیار کی ہے اور اسے ہی اصل فیصلہ قرار دینے پر اس کا مسلسل اصرار ہے وہ یکسر خلاف آئین و قانون اور جمہوریت ہے ۔ آئین و قانون کے مطابق اپنے کام میں سرگرم ہونے والی عدلیہ کو جس انداز اور الفاظ میں چیلنج کیا جا رہا ہے کیاوہ بغاوت کے زمرے میں نہیں آ رہا ؟اب تک ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے جن کے خلاف فیصلے ہو چکے ہیں؟ کیا انہیں بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے گلی محلوں میں اپنے حامیوں ساتھیوں اور کرایے کے تائید کنندگان کو جمع کرکے ایسی ہی’’عدالتیں‘‘لگا کر اسی طرح عدالتی فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دیں؟ ان جلسوں میں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ ہمارے اتنے اتنے مالدار وزراء اور وزیر اعظم صاحب کو یہ اقاموں کی ایسی کیا ضرورت پڑ گئی تھی یہ اقامہ کہانی اتنی خفیہ کیوں رہی ؟ یہ جو ان کی آل اولاد ملک سے اتنا بھاری سرمایہ باہر لے جا کر سرمایہ کاری کر رہی ہیں، وہ یہاں آکر کیوں نہیں کرتی ؟ملک کا وزیرخزانہ ایک دو پیشیوں پر ہی فرار ہو جاتا ہے استعفیٰ دیتا ہے نہ عدالت کاسامنا کرتا ہے ۔نیب جب تک بے بس اور نیم مردہ تھی تو بہت اچھی تھی، اب حاکموں کے بھی احتساب کے قابل ہوئی ہے تو سازش کا حصہ بن گئی۔
حضور والا !اب ملک میں آئین و قانون کی ہی حکمرانی ہو گی آئین و قانون کی تشریح اور فیصلے، تبادلے کرانے اور نوکری حاصل کرنے والے اپنے ایم این اے، اورایم پی ایز سے تھانے میں ایف آر رکوانے والے ،کچہری سے غیر قانونی ضمانتیں کرانے والے اور سیاسی ڈیروں کے بچارے چھوٹے چھوٹے بینی فشریز کے فیصلے جلسے نہیں عدالتیں اور جج کریں گے۔ صرف اور صرف آئین کی چھتری میں کام کرنے والی عدلیہ ہی بمطابق آئین پاکستان، فراہمی عدل و انصاف کا واحد ذریعہ ہے۔

تازہ ترین