• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریں الجھتی جارہی ہیں، تاریکی ہے کہ چھٹنے کا نام نہیں لے رہی، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا، سیاسی منڈی میں اپنا سودا بیچنے کے لئے ہر کوئی بھانت بھانت کی بولی بول رہا ہے جس میں روایات اور اقدار سرے سے موجود ہی نہیں۔ ٹھیک ہے ہم صدیوں محکوم رہے مگر اتنے گرے پڑے تو نہ تھے کہ اپنی روایات اور اقدار ہی بھول بیٹھیں۔ آج ہم مفادات کے غلام بن چکے ہیں۔ ہم نے دوسروں کا قد ماپنے کے لئے اپنے اپنے معیار مقرر کررکھے ہیں۔ ہم سیاسی تاجر بن چکے ہیں، اپنے معاملات میں خوب ناپ تول رکھتے ہیں۔ قصور کے واقعہ پر ہمارا ضمیر زندہ ہو جاتا ہے مگر ہو بہو مردان کے واقعہ پر ہم اسے بے حسی کا سیرپ پلا کر سلا دیتے ہیں، اگر کراچی میںنقیب اللہ محسود رائو انوار جیسوں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل ہو جائے تو ہماری آواز کچھ اور ہوتی ہے، لاہور میں ہو تو کچھ اور۔ کیا یہ عقل کے اندھوں کا ملک ہے جنہیں یہ سب پاگل بنانے چلے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ سوچ پر اختیار ہے نہ ہی زبان کو لگام۔ ایسی ایسی دشنام طرازیاں اور لغو بیانیاں سننے کو مل رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ قوم کی قیادت کے دعوے داروں اور جمہوریت کے ٹھیکے داروں نے ماحول کو اس قدر پراگندہ کر دیا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں اور قیادت ان کی مالک۔ ہر کوئی زبان درازی کررہا ہے مگر عملی طور پر کچھ نہیں۔ ایک سیاست دان سے لے کر عام شہری تک لفاظی کا گورکھ دھندہ چل رہا ہے۔ ہرروز ایک نیا اسٹیک ہولڈر جنم لیتا ہے اور اپنی موت آپ مر جاتا ہے کیا دور چل پڑا ہے کہ دھڑا دھڑ ایشو بن رہے ہیں، ایک ایشو کو دبانے کے لئے دوسرا کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کے گھر میں جھانک رہا ہے مگر اپنے گھر کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ جب معاشرے میں عملی اقدام اور موثر کردار کے بجائے محض وعظ و نصیحت اور ستائش و تنقید کا کلچر پروان چڑھ جائے تو پھر اداروں کا تقدس رہتا ہے نہ ہی افراد کا۔ پھر جمہوریت سر بازار لٹتی ہے اور آمریت اپنے گل کھلاتی ہے۔ کیا وقت آگیا ہے کہ بے پیندے کے لوٹے عوام کی قسمت کا حال بتا رہے ہیں۔کش مکش کی اس صورت حال نے عوام میں جو بے چینی پیدا کررکھی ہے اس کا مداوا کم از کم یہ نجومی تو نہیں کرسکتے۔
ساکھ میں دراڑ پڑ جائے تو مرتے د م تک جاری رہتی ہے۔ ز بان سے شعلے اگلنا اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنا بہت آسان ہے مگر اپنے گریبان میں جھانکنا مشکل تر۔ حدیہ ہے کہ ہم نے دوسروں کی کمزوری کو اپنی طاقت بنا رکھا ہے جب کہ اپنا دامن داغدار کرنے کے لئے زبان کی لگامیں کھول رکھی ہیں۔ یہ لگام اگر کھل جائے تو آدمی کو جیتے جی مار دیتی ہے۔ نہ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ زبان درازی کا خمیازہ ہمیں بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے لاہور کے مال روڈ پر جوش خطابت میں پنڈی کے شیخ اور ہمارے بڑے خان صاحب اپنی زبان سے خود کو کتنے بڑے امتحان میں ڈال گئے۔ بڑا دعویٰ کرکے بھاگ گئے۔ وہ بھاری پتھر اٹھا کر ریت پر پائوں جمانا چاہ رہے تھے، ایسا کوئی بازی گر تو کرسکتا ہے مگر لیڈر نہیں۔ وہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے چلے تھے خود جم گئے۔ استعفوں کی بڑھک نے دونوں کی ساکھ ہی خراب نہیں کی ، منظر سے بھی آئوٹ کر دیا ہے، وقتی طور پر ہی سہی ۔ یہ زبان بڑی ظالم چیز ہے، اپنے غلط استعمال کابدلہ فوراً لیتی ہے۔ ایک اینکر پرسن نے جو غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے کے ’’ڈاکٹر‘‘ ہیں قصور واقعہ کے پس منظر میں ملزم عمران علی کے 37 بینک اکائونٹس کے نام پر جو زبان درازی کی پوری صحافتی برادری کا سر نیچا کر گئی اوریہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں جب مفاہمت کے گرو نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو کڑواہٹ زبان کو آئی اور پل بھر میں چلے اینٹ سے اینٹ بجانے کو۔ وہ اینٹ تو نہ بجا سکے البتہ دبئی جا کر غم کی بانسری بجاتے رہے۔ ان کی زبان نے انہیں اس قابل نہ چھوڑا کہ پارٹی اجلاس بھی پاکستان میں کر سکیں لہٰذا دبئی جا کر سندھ حکومت چلاتے رہے۔ اب وہ نواز شریف کے پیچھے ہیں۔ اِدھر نواز شریف ہیں کہ اداروں پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں اور ایسا لب و لہجہ استعمال کررہے ہیں جو آئندہ ان کے لئے مزید پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ سنا ہے جو گرجتے ہیںوہ برستے نہیں۔ یہ سب ’’انجمن زبان درازاں‘‘ کے معززارکان ہیں۔ ملک میں افراتفری، سیاسی کش مکش اور کمزور شخصی پہلوئوں کا جو عالم ہے اس میں یہ انجمن خاصی ترقی کرتی نظر آرہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی نے چند ماہ قبل ہی اس کی باقاعدہ رکنیت حاصل کی۔ نتیجہ: غیر مشروط معافی مانگ کر جان خلاصی کرائی۔ ان کی زبان درازی نے انہیں جماعت سے بھی نکلوایا اور لوگوں کے دلوں سے بھی۔ جو زبان سے میدان فتح کرنے نکلتے ہیں وہ خود چت ہو جاتے ہیں۔ زبان بڑوںبڑوں کو ایسا دھوبی پٹکا مارتی ہے کہ پھراٹھنے نہیں دیتی۔ قابل صد احترام جناب چیف جسٹس صاحب نے اپنے الفاظ پر معذرت کرلی، یہ مشرقی معاشرہ ان کے الفاظ ہضم نہیں کرپایا اور جب قوم کو الفاظ کی بدہضمی ہوتی ہے تو بڑے بڑے طبیب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
گرجنا بہادری نہیں، برسنا باعث رحمت ہے۔ یہاں گرجنا زبان درازی ہے اوربرسنا عمل۔فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ کون سا راستہ منتخب کرتے ہیں۔ اگر شخصیت میں کھوکھلا پن ہو تو زبان دراز ہو ہی جایا کرتی ہے وگرنہ تو ہم نے بڑے بڑے دانش وروں کو کونوں میں خاموش بیٹھے دیکھا ہے۔ بھلا آدمی جب بھی بولتا ہے بھلا ہی بولتا ہے وہ سب کے فائدے کی بات کرتا ہے، وہ اپنے غصے کا غلام نہیں ہوتا بلکہ اعلیٰ شخصی اقدار اور اخلاقیات کا پیرو کار ہوتاہے۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر غلط کو غلط اور جھوٹے کو جھوٹا کہتا ہے۔ وہ دبتا نہیں، اس کا سچ اندر سے بولتا ہے۔ اس کی زبان اس کی طاقت ہوتی ہے جو اس کی رسوائی کا سبب نہیں بنتی۔
ٹویٹ کلچر نے جہاں مدعا بیان کرنے کا شارٹ کٹ دے دیا ہے وہیں یہ ہیجان کا باعث بھی بن رہا ہے۔ ٹویٹ افراد کی ڈیجیٹل زبان ہے جس کے مثبت و منفی اثرات بھی یکساں ہیں۔ ہم افراتفری کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ جب بس نہیں چلتا تو اخلاقیات چھوٹی اور زبان دراز ہو جاتی ہے۔ ہماری رہنمائی کرنے کے دعوے دار رہنمائوں نے زبان درازی کا جو کلچر ایک نئے ڈھنگ سے متعارف کرایا ہے، خوش قسمتی ہے کہ عوام سوشل میڈیا پر اسے سخت ناپسند کررہے ہیں، وہ زبان درازی کے کرتبوں سے آشنا ہو چکے ہیں اور ایسے زبان درازوں سے پناہ مانگتے ہیں۔
زبان سے عروج وزوال اور حکمت کی داستان میں ذرا اضافہ کرلیجئے۔ آنکھوں کے سامنے ایک تصویر ہے جو جناب زرداری صاحب کی ہے، کراچی میں ایک بڑا کمرہ، ایک لمبی چوڑی میز کی مرکزی کرسی پر وہ براجمان ہیں ان کے دائیں بائیں وزیراعلیٰ سندھ اور نو منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو تشریف فرما ہیں اور دونوں صوبوں کی کابینہ کے ارکان بیٹھے ہیں اور جناب زرداری اجلاس کی صدارت فرما رہے ہیں۔ یہ مستقبل کا خاموش بیانیہ ہے جسے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی سیاست کیا رخ اختیار کرنے والی ہے۔ ایک جھک گیا، دوسرا معزز ہوگیا، تیسرا تین میں نہ تیرہ میں، زیادہ زبان درازی کا انجام سامنے نظر آرہا ہے۔

تازہ ترین