• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی ڈائریکٹر انوشا رضوی اور محمود فاروقی نے 2010ء میں ایک فلم بنائی جس نے صحافت اور سیاست کا نقاب اُلٹ دیا ۔ویسے تو اس فلم کی کہانی ایک غریب کسان گھرانے کے گرد گھومتی ہے لیکن اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب کوئی المیہ رونما ہوتا ہے تو پتر کار اور سیاست کار کس طرح رنج و الم کی اس گھڑی سے بھی اپنے مفادات کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔فلم کے ایک منظر میںٹی وی چینل کا سیٹھ اینکر کو بلا کر کہتا ہے کہ آپ کے شو کی ٹی آر پی نیچے جا رہی ہے ۔اینکر کی طرف سے یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ آپ بخوبی جانتے ہیں ٹی آر پی جعلی ہوتی ہے اوراسے مقبولیت کا پیمانہ قرارنہیںدیا جا سکتا مگر سیٹھ یہ کہہ کر اسے لاجواب کر دیتا ہے کہ یہ ٹی آرپی کتنی ہی جعلی کیوں نہ ہو لیکن ہمارے اسپانسرز انہی اعداد و شمار پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر ہی ہمیں اشتہارات ملتے ہیں۔اینکر کی طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ پھر کیا کیا جائے ؟ٹی وی چینل کا مالک فیصلہ کُن انداز میں کہتا ہے چاہے کچھ بھی کرو مگر ٹی آر پی آنی چاہئے ۔اینکر خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے یہ کہہ کر چلی جاتی ہے کہ ٹی آر پی آنی چاہئے اس کے لئے چاہے مجھے کسی کو قتل کرنا پڑے۔اس دوران ایک ایسی اسٹوری ہاتھ آتی ہے کہ تمام نیوز چینلز کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔یہ کہانی ہے ایک کسان نتھا داس مانک پوری کی جو فصل تباہ ہونے کے باعث بنک سے اٹھائے قرضے کی قسط ادا نہیں کرپاتا اور اس کی زرعی زمین نیلام ہونے کا نوٹس آجاتا ہے ۔وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سیاسی وڈیرے کے ڈیرے پر مالی امداد کی بھیک مانگنے جاتا ہے تو وہاں سے بے عزت کرکے نکال دیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ تم دونوں میں سے اگر کوئی ایک خودکشی کرلے تو تمہارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ بھارت سرکار نے خودکشی کرنے والے کسانوں کو فی کس ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔
بڑے بھائی کی جذباتی بلیک میلنگ میں آکر نتھا داس مانک پوری خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔یہ خبر ایک مقامی اخبار میں چھپتی ہے تو ٹی آر پی کا بھوکا الیکٹرانک میڈیا اسے اچک لیتا ہے ۔ایک نیوز چینل پر خبر نشر ہوتے ہی پورے میڈیا میں کھلبلی مچ جاتی ہے ،تمام ٹی وی چینلز کے مالکان چیختے چلاتے ہیں کہ یہ خبر ہمارے پاس کیوں نہیں ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دوردراز گائوں پپلی میں براہ راست نشریات کے لئے مخصوص ان گاڑیوں کا جمگھٹا لگ جاتا ہے جنہیں ڈی ایس این جیز کہا جاتا ہے۔نتھا کی بوڑھی ماں ہی نہیں اس کی بکریوں پر پیکیج بننے لگتے ہیں۔نتھا سو رہا ہے ،نتھا نے انگڑائی لی ،نتھا نے ہاتھ ہلایا ،نتھا کب خود کشی کرے گا ۔نتھا کیسے خود کشی کرے گا،ہر زاویئے سے کوریج ہو رہی ہے ،اس دوران نتھا رفع حاجت کے لئے جاتا ہے تو کیمرہ مینوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔میڈیا کی چکا چوند دیکھ کر سیاستدانوں کی بھی دوڑیں لگ جاتی ہیں،حکومت معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرتی ہے تو اپوزیشن الجھانے میں لگ جاتی ہے۔مرکزی کردار نتھا چونکہ ایک عام اور سادہ آمی ہے لہٰذا سب اسے اپنی انگلیوں پر نچانے اور اپنی مرضی پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ سوچ کر سب کے پیچھے چل پڑتا ہے کہ شاید اس کی دادرسی ہو جائے۔
یوں تو پہلی بار یہ فلم دیکھنے کے بعد گزشتہ آٹھ سال کے دوران مجھے کئی بار یہ لگا کہ ہمارے ہاں ’’پپلی لائیو‘‘ نامی فلم سیٹ سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی لیکن قصور کی معصوم بچی زینب کی دردناک داستان سے ٹی آر پی بڑھاتے گِدھوں کو منڈلاتے دیکھا تو اس فلم کے تمام مناظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔میڈیا کی غیر معمولی کوریج کا سلسلہ اس بچی کے حق میںآوازاٹھانے اور سفاک درندے کو انصاف کے کٹہرے میں لانے تک محدود رہتا تو الگ بات تھی مگر وہ زیر تعمیر مکان بھی ازخود ہی دریافت کر لیا گیا جہاں اس بچی کو رکھا گیا تھا اور اس کال کوٹھڑی سے یوں کوریج کی جاتی رہی جیسے یہ کوئی عجائب گھر ہو۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ رانجھا نامی جس شخص کو سہولت قرار سمجھ کر اس کے گھر سے براہ راست کوریج کی جاتی رہی اسے تو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کیاگیا تھا اور ملزم کی نشاندہی کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔شکست خوردہ اور منفی ذہنیت کے باعث ہمارے ہاں سازشی تھیوریوں کا منجن ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے ۔اس حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر عجیب و غریب قسم کی خود ساختہ کہانیاں زیر گردش تھیں مگر جب الیکٹرانک میڈیا پر چائلڈ پورنو گرافی ،ڈارک ویب اور ملزم عمران علی کے بنک اکائونٹس کی بنیادپر ہوائی قلعے تعمیر ہونے لگے تو ان سازشی تھیوریوں کی قبولیت مزید بڑھ گئی۔معصوم زینب کے معاملے پر ٹی آرپی بڑھانے اور سیاست چمکانے والے کٹھور دل بہت اچھی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ ان کی خودغرضی سے یہ مقدمہ کمزور ہو سکتا ہے اور بے بنیاد شکوک و شبہات کو ہوا دیکر وہ دراصل اس ملزم کی مدد کر رہے ہیں جس نے پرلے درجے کی حیوانیت کا مظاہرہ کیا۔اگر خدانخواستہ یہ شخص عبرتناک سزا سے بچ گیا تو پھر ہم میں سے کسی کی زینب محفوظ نہ ہوگی۔
جہاں نیوزچینل ٹی آر پی کی دوڑ میں اینکرز کو کچھ بھی کرنے پر اکساتے ہیں وہاں شہرت کا جنون اور ناموری کا لپکا بھی بعض حضرات کو ایسی چھچھوری حرکتیں کرنے پر مجبور کرتا ہے۔امریکی مدبر اور مصنف ہورک گریلی نے کہا تھا کہ شہرت ایک حادثے کا نام ہے ،مقبولیت بھاپ کی طرح سفر کر جاتی ہے ،دولت پر لگا کر اڑ جاتی ہے۔ایک ہی چیز ہمیشہ ساتھ رہتی ہے اور وہ ہے آپ کا کردار۔مگر چرچے کی لت میں مبتلا افراد کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ زبان زدعام ہوں ہر طرف ان کا ذکر ہو ،ذکر خیر یا ذکر بد ،اس سے انہیں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔چینی دانشور کنفیوشس کے خیال میںفطری طور پر ہر شخص ہی دولت اور شہرت کی خواہش رکھتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ اس خواہش کی کیا قیمت ادا کرنے کو تیار ہے ؟المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں چند اینکرز شہرت کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیںاور ان کے نزدیک نیک نامی یا بدنامی سے قطع نظر شہرت محض شہرت ہوتی ہے ۔شہرت بڑھانے اور اپنے نام کو چار چاند لگانے کے لئے انہیں جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ بھی بولنا پڑے تو باز نہیں آتے۔حالانکہ یہ اینکر پرسن اور تجزیہ نگار ہیں ،خبر نگار نہیں مگر بڑی خبر بریک کرنے اور بڑے انکشافات کی خاطر من گھڑت کہانیاں تراشنے سے اس لئے نہیں ہچکچاتے کہ یہاں کوئی بازپرس نہیں ہوتی۔کسی ضابطے میں لانے کی کوشش کی جائے تومیڈیا کی آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ریٹنگ کی دوڑ اور شہرت کی اشتہا کے باعث پاکستان میڈیا انڈسٹری کب تک بھارتی فلم ’’پپلی لائیو‘‘ کا حقیقی نمونہ پیش کرتی رہے گی؟ شاید تب تک جب تک کوئی آگے بڑھ کر بلی کے گلے میں گھنٹی نہیں باندھے گا۔

تازہ ترین