• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2014سے شروع سلسلہ، نہ ختم ہونے کو، قوم تھک ہار، چکنا چور ہو چکی ہے۔ جمہوریت کو تہس نہس کرنے کی تاریخ پر تاریخ، ایک منصوبہ خاطر خواہ نتائج نہیں دے پاتا، خندہ پیشانی سے، ماتھے سے بغیر پسینہ خشک کئے، نئی تاریخ آ جاتی ہے۔ کیسے مان لوں؟ ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات، جہاں نادرا کا سرچ انجن استعمال ہوا، ڈیٹا بیس(DATA BASE) کھنگالا گیا، خادم رضوی اور ساتھیوں کو قانون کی دسترس سے دور رکھنے کے لئے سیف سٹی اسلام آباد کی انتہائی خفیہ بچھی تاروں تک رسائی اور کٹائی، غیر معمولی غیر مرئی طاقت کو بروئے کار لائے بغیر ناممکن تھی۔ پارلیمان پر لعنت بھیجنے والے، نظام کو آڑے ہاتھ لینے والے، جمہوریت کی سرزنش کرنے والے، جمہور کے عقل و شعور کو ناقابلِ فہم واعتبار جاننے والے، تحفظ آئین و قانون سے تجاوز رکھنے والے، ملک کے اندر افراتفری، نفسا نفسی، بداعتمادی، بے یقینی، تشکیک، ابہام، جھوٹ، دروغ گوئی، منافقت، بہتان کے کاروبار کو پروان چڑھانے والے، سیاست اور میڈیا کے چُغادری مسخرے مہرے سب ایک کمانڈ، ایک جمعیت، ایک ایجنڈے تلے، ایک ہیں۔ چالباز سیاستدان، مذہبی اٹھائی گیر، میڈیا کے بعض مصنوعی اینکر فوج اور عدالتوں کے خود ساختہ ترجمان و نمائندہ بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود محاصرے میں آنے والا پہلا بندہ ضرور، حقیقتاً عبرتناک المناک اس لئے کہ خدائی نرغے میں آ چکا ہے۔ اِن شاء اللہ آغاز اچھا، دوسرے بہتوں کے برے انجام کی نوید ہے۔ پارلیمان پر لعنت بھیجنے والے ملامتی لاہور جلسے پر عوام الناس کی عدم شرکت پر مایوس ہیں۔ لاہور جلسے پر منہ کے بل زمین چھوئی، کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہوتے ہی نئی تاریخیں دینے سے کترائے نہیں۔ ن لیگ کی پہلی ترجیح سینیٹ الیکشن کو یقینی بنانا تھا۔ ہچکولوں نے ن لیگ کو بلوچستان کی 2/3سیٹوں سے محروم ضرور کیا۔ الیکشن کا انعقاد یقینی رہنا، ن لیگ کی بہت بڑی سیاسی فتح ہے۔ پارلیمان پر لعنت بھیجنے والے بھول گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت صرف جھوٹوں پر بھیجی ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی بیتی بتا رہی ہے کہ جھوٹوں پر اللہ کی حجت تمام ہوچکی ہے۔
عرصے سے سازشوں اور جھوٹوں کی بوچھاڑ سامنے جمہوریت، سیاست، آئین، قانون، نظام، پارلیمان سب بے دست و پا، کسمپرسی کا شکار ہیں۔ نواز شریف کی نااہلی پر مطلوبہ نتائج نہ ملے کہ نواز شریف نے کمال مہارت سے براستہ جی ٹی روڈ عوام کو جگا دیا ہے۔ لوگوں نے پذیرائی دے کر پہلے سے زیادہ مستحکم کر دیا۔ پیغام ایک ہی آپ جتنے ہنر آزمائیں عوام الناس کا عزم بالجزم کو مزید مستحکم ہوگا۔ آج ووٹر سپورٹر پہلے سے زیادہ ثابت قدم و متحد ہے۔ قتل کرتے ہو، آہ کی اجازت نہیں، کیسا انصاف ہے؟ نواز شریف کا کراہنا، احتجاج کرنا، آواز اٹھانا گراں کیوں لگ رہا ہے؟ ایسی گستاخی، توہین، بے ادبی غداری کی مد میں شامل ہو چکی۔ بوجہ دونوں محکموں میں ڈپریشن غصہ دیدنی ہے۔ اٹل حقیقت، ایمان کی حد تک یقین کہ پاکستانی فوج کے تمام سپہ سالار اور کئی سینئر جرنیل بہترین سپاہی، پروفیشنل، عسکری تدبر و فراست سے مالا مال، ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔ 2009 میں جنرل کیانی کا صدر اوباما کو پیش کی گئی دستاویز 2.3کا تذکرہ ضرور کروں گا۔ افغانستان کا بہترین اور بولڈ حل دیا، اس بات کو بہرصورت دیکھنا ہے، ایک آدھ چھوڑ کر، شاید ہی کوئی سپہ سالار بچا ہو جس نے سیاسی حکومت یا جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا رکھنے میں بخل دکھایا ہو۔ کتابیں پھرولیں، سب کچھ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ وجوہات یکساں، ذاتی استحکام، توسیع مدت ملازمت یا مطلق العنان بننا رہیں۔ تکلیف دہ، آئینی ادارے ممدو معاون بننے میں فراخدل رہے۔ اقوام عالم کے حالیہ سروے نے ایک بات راسخ کی، بلا تفریق ہر ملک اپنے اپنے سیاستدانوں سے شاکی ونالاں ہے۔ کسی طور قدر و منزلت کے قابل نہیں سمجھتے۔ خوش قسمتی منسلک، کہیں بھی ریاستی ماتحت ادارے ایسی عوامی رائے کے بل بوتے جمہوری نظام کو کھوکھلا رکھنے یا سیاستدانوں کو تہہ تیغ کرنے بارے سوچ بھی نہیں سکتے۔ کسی طور سیاسی پارٹیوں میں نقب زنی، سیاستدانوں کو ڈرا دھمکا، لالچ، بلیک میلنگ کے ذریعے وفاداریاں تبدیل کروانے کا منصوبہ، نظام کمزور کرنا، عدالتی نظام کو استعمال کرنا، مددگار بنانا، مہذب دنیا ایک طرف، کسی نیم مہذب ملک میں بھی ممکن نہیں۔ ماضی قریب میں ایسی ترتیب میں واحد ترکی (شاید ہم سے بھی بدتر) ہم جیسے حالات سے دوچار رہا، آج پاکستان اکیلا و تنہا ہے۔ مانا کہ ترکی پر حملے ختم نہیں ہوئے، سازشیں جاری ہیں۔ طیب اردوان اور ترکی جمہوریت کی بیخ کنی میں امریکہ بہادر مستعد ہے۔ صدر اردوان پر ایسے ہی الزامات، سینکڑوں سویلین کی تاریخی کرپشن، عدالتی نظام کو مطیع و فرمان بنانا، بادشاہت قائم رکھنا، وغیرہ وغیرہ رہے۔ ناکام فوجی مداخلتیں رہیں، مخالفت میں دن رات میڈیا کو تندہی سے استعمال میں رکھا۔ جان سے مارنے کی حکمت عملی بنائی۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ عوام الناس کا پرجوش سمندر جب پشت پر سب کو منہ کی کھانا پڑی۔ پاکستان میں آج بھی جمہوریت مفلوک الحال، کمزور و نحیف جبکہ سیاستدان فہم و فراست، صلاحیت، نظریات، عہد و اقرار، اخلاق و کردار میں طیب اردوان کا عشر عشیر نہیں۔ سہاگہ کہ سیاست دانوں کا گروہ اور میڈیا کی اکثریت مہرہ بننے پر ہمہ وقت موجود و تیار۔ پچھلے 70سال سے جب کبھی جمہوری دور آیا، کوئی ایک سال نہیں، سیاسی عدم استحکام اور ریشہ دوانیاں عروج پر نہ رہی ہوں۔ برعکس، عسکری ادوار دس دس سال رہے، راوی نے سیاسی چین و سکون رقم کیا۔ استعمال شدہ سیاستدان نشان عبرت، جو جو پابہ رکاب رہا، (کنونشن لیگ، مسلم لیگ (جونیجو)، ق لیگ کا حصہ بنے) تاریخ کے قبرستان میں عزت و احترام سے محروم، مدفون ہیں۔ 2008 سے پھر جنم لینے والی ڈھیٹ جمہوریت نے آج تک شاید ہی کوئی لمحہ جی بھر کے سکون کا سانس لیا ہو۔ ریڈی میڈ بحران ہر دوسرے سال نظام کو لپیٹنے کی خبر دیتا ہے۔ کٹھ پتلی میڈیا اور سیاسی مہرے فوج اور سپریم کورٹ کے خود ساختہ ترجمان بنے، قوم میں باہمی تصادم، افراط و تفریط، گالم گلوچ عام کر چکے ہیں۔ تکلیف اتنی کہ اداروں نے بھی لگام ڈالنے یاتردید کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ چنانچہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا ڈھٹائی سے جھوٹ پر ڈٹنا، اترانا سمجھ میں آتا ہے۔ دوسری طرف تلخ حقیقت یہ بھی، ایک سیاستدان بھی نہیں (جماعت اسلامی کو استثنیٰ) جو مالی بے ضابطگی، اخلاقی بے راہ روی، کم فہمی، ناقص عقلی، کھوکھلے نظریات سے منسلک نہ ہو۔ اکثریت تو ایسے اوصاف حمیدہ سے بھرپور مالامال ہے۔ پاکستانی عوام الناس کی قوت چنائو کو جانتا ہوں۔ سیاستدانوں کی کمی بیشی کو من وعن عوام کے سامنے رکھو، خود نبٹ لیں گے۔ ایسوں کو ان کے کرتوتوں کے ساتھ عوام کے سامنے جانے دو۔ میرا ذاتی تجربہ، خلقت کو جب بھی موقع ملا تو ایسے سیاستدانوں کی کمی بیشی سے اپنا حساب کتاب بے باک رکھا۔ نادیدہ قوتوں کے اشاروں پر عوام کو تابڑ توڑ بتائو گے تو عوام ایسوں کا منہ چڑائیں گے۔ اپنی غلطیوں، نالائقیوں، وارداتوں کی آڑ میں آج کی تاریخ میں عوام کو کوسنا، بدنیتی، جہالت اور مایوسی ہے۔
2002 میں، عمران کا میانوالی الیکشن ترتیب و منظم کرنے کی ذمہ داری تھی۔ روایتی مضبوط امیدوار عبیداللہ شادی خیل کے مقابلے میں عمران خان منتخب ہوئے۔ باوجود یہ کہ اہالیان میانوالی جانتے تھے عمران بمعہ پارٹی NA-71کے علاوہ شاید ہی کہیں ضمانت بچانے کی پوزیشن میں تھے۔سروے بتاتے ہیں،2011میں اسی عوام ہی نے تو تحریک انصاف کو ن لیگ پر واضح فوقیت دی۔ عمران خان کی کارکردگی اور قابلیت جیسے ہی عیاں ہوئی، لوگوں نے اپنی دلچسپی واپس لے لی۔ رانا ثناء اللہ نے بالکل سچ کہا ’’ڈاکٹر شاہد مسعود کے پیچھے وہی تو ہے جو عرصے سے نظامِ سازش چلا رہا ہے‘‘۔ چالباز سیاستدان ٹولہ، خودساختہ عالم دین، نام نہاد فرقہ پرست مولوی، جعلی میڈیا ان سب کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیں، ایک ایک مرحلہ سازشوں، ریشہ دوانیوں کے نقشِ پا سے پر ہے۔ 1951سے آج تک نہ ختم ہونے والا لامتناہی سلسلہ، کبھی بند بھی ہو پائے گا؟ کئی دفعہ عرض کیا، پہلی دفعہ امریکہ پاکستان کو اپنی توپوں کے نشانے پر خطرناک حد تک لے چکا ہے، کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔موجودہ ریشہ دوانیوں کی بھرمار کسی طور ریاست برداشت نہ کر پائے گی۔ کس کے آگے بین بجائوں جن کو ادراک، حال مست، مستقبل غافل، اپنی دھن میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ بس کرو بھائی، اب تھک ہار چور چور ہو چکے ہیں۔ رحم فرما دیں، عین نوازش ہو گی۔
شذرہ:ریڈی میڈ ملکی بحران، افراتفری، سیاسی ابتری، بیرونی خطرات کی موجودگی میں ثانوی محکموں اور اداروں کی اونچ نیچ پر گفتگو، میرے کالم میں جگہ بنانا مشکل ہے۔ اس موقع پر عرض نہ کروں تو طبیعت بوجھل رہتی۔ ڈاکٹر عاصم کی سندھ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور چیئرمین تعیناتی اور مرکزی حکومت کی چیئر مین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈھونڈنے پر بنائی سرچ کمیٹی کے ناموں کا جائزہ لیتا ہوں تو حکومتوں کی جہالت اور بدنیتی سامنے آتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی چیئرمین ہائر ایجوکیشن یا یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر تعینات کرنے کی سو چ کتنی معمولی اور عامیانہ، حیف آتاہے۔ ڈاکٹر عاصم کا تونام ہی کافی ہے۔ دوسری طرف سمجھدار احسن اقبال کی موجودگی میں سید بابر علی، شہناز وزیر علی اور4دوسرے غیر معروف لوگوں کو سرچ کمیٹی کا ممبر بنانا پورے عمل کا بھونڈا مذاق اڑانا ہے ۔ شہناز وزیر اور بابر علی بہت سمجھدار، عزت دار، محترم بہت بڑی کاروباری شخصیتیں ہیں۔ سید بابر علی نے LUMS جیسے بڑے تعلیمی ادارے کھڑے کئے۔ یقیناً بے پناہ سرمایہ اور غیر ملکی امداد نے LUMS کو اس مقام تک پہنچایا۔کیسے بتائوں، HECکا چیئرمین ڈھونڈنا ان کی مہارت سے باہر ہے۔ پنجاب حکومت بھی وائس چانسلروں کی تعیناتی کے لئے اسی قبیل کے لوگوں سے رہنمائی لیتی رہی ہے۔ پنجاب میں میرٹ کا بے ڈھنگا نظام تشکیل دیا۔ منطقی انجام، سلیکشن میں بے شمار سقم رہے۔ مودبانہ گزارش کہ اگر مرکزی حکومت (اگرچہ بدنیتی شامل نہیں) ڈھنگ سے سرچ کمیٹی تشکیل نہیں دے پاتی تو ہائر ایجوکیشن کمیشن یا یونیورسٹیاں جو پاکستان کی اقتصادی بحالی، انفراسٹرکچر، لوڈ شیڈنگ مکائو سے کہیں زیادہ اہم ہیں، کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ احسن اقبال صاحب! آپ توجہ دیں (اگرچہ آپ کے دائرہ اختیار سے باہر ،مگر سمجھدار آپ ہی تو ہیں) سرچ کمیٹی بنائیں۔ جو رائٹ بندہ رائٹ جاب کے لئے اپنے طور بندہ ڈھونڈنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ نابغہ روزگار ڈھونڈنے کے لئے جستجو اور تحقیق چاہئے۔ شاید کسی کو اس کے گھر کے اندر سے ڈھونڈ باہر نکال لانا پڑے، بین ایسے ہی جیسے مشرف حکومت ڈاکٹر عطا الرحمٰن کو متعارف کروا کر اس شعبے میں عزت و منزلت کی مستحق ٹھہری۔

تازہ ترین