• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند دنوں میں کابل میں مسلسل دہشت گردی، دھماکوں اور ہلاکتوں کے واقعات نے خطے میں صورت حال کو تیزی سے تبدیل کردیا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ اور نئی نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی کے پاکستان کے لئے مضمرات بھی واضح نظر آنے لگے ہیں۔ وہ تمام خطرات اب مزید واضح انداز میں ابھر رہے ہیں جن کا ذکر کئی ماہ سے اپنے ان کالموں میں تسلسل کے ساتھ کرتا آرہا ہوں مگر انتخابات اور اقتدار کی سیاست میں الجھے ہوئے ہمارے پاکستانی سیاستدانوں کو یہ سب محض توجہ ہٹانے کیلئے ’’نظریہ سازش‘‘ کا حصہ نظر آیا۔ وہ ان بدلتے حالات واقعات پر توجہ و تبصرہ کئے بغیر ذاتی حملوں، جوابی الزامات اور نفرت کی سیاست میں مصروف ہیں اور یہ بھی سوچنے کو تیار نہیں کہ اگر افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال، پاکستان پر امریکی الزامات و مطالبات کے دبائو سے پیدا ہونے والے اثرات نے پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد پر کوئی اثر ڈالا تو پھر کیا ہوگا؟ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی اور ان کے کسی بھی لیڈر نے پاکستان کے گرد جمع ہونے والے خطرات، خارجہ پالیسی، معیشت، قومی سیکورٹی، امن عامہ کے بارے میں نہ تو کوئی بیان یا پلان دیا ہے نہ ہی انتخابی منشور اور نہ ہی کوئی حل پیش کیا بلکہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور ’’سنگل ایشو‘‘ کی بنیاد پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ عمران خان نواز شریف اور کرپشن کے خلاف نعروں، طاہر القادری ماڈل ٹائون کے سانحہ پر مرکوز ہیں تو پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کے نام اور ورثہ پر جبکہ مسلم لیگ (ن) عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج کی انتخابی حکمت عملی پرعمل پیرا ہیں۔ پاکستان کے اردگرد منڈلاتے خطرات، امریکی صدر کے مطالبات اور بھارت کے عزائم کے بارےمیں نہ تو کوئی لیڈر ذکر کرتا ہے نہ ہی اس بارے میں اپنا کوئی حل یا پروگرام پیش کرتا ہے صرف الیکشن جیتنے کی خواہش کا جنون ہے؟
پڑوسی افغانستان میں بارود سے بھری ایمبولنس سے تباہی پھیلانے، افغانستان کی فوجی اکیڈمی پر حملہ اور دہشت گردی کے المناک تازہ واقعات کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ ہر پاکستانی کے لئے غورو فکر کا سنجیدہ پیغام لئے ہوئے ہیں۔ مارشل فہیم ڈیفنس یونیورسٹی افغانستان کے لئے ملٹری اکیڈمی کا درجہ رکھتی ہے جہاں 15ملٹری کیڈٹس دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہوئے اور چار دہشت گرد اور ایک زخمی حالت میں گرفتار ہوا کابل کے ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل پر حملہ اور دیگر حملوں کے تواتر اور تناظر میں صدر ٹرمپ کا تازہ بیان غور و فکر کی دعوت لئے ہوئے ہے۔ کابل میں کار بم دھماکے میں ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’اب تمام ملکوں کو طالبان اور ان کو سپورٹ کرنے والے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کے خلاف فیصلہ کن ایکشن کرنا چاہئے‘‘۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے بھی ایمبولنس استعمال کرکے دہشت گرد حملے کو بزدلانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’وہ تمام ممالک جو افغانستان میں امن کے حامی ہیں ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ طالبان کی تشدد کی مہم کے خلاف فیصلہ کن اقدام کریں‘‘۔ گوکہ صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ ٹلر سن نے کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن واضح طور پر پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام صدر ٹرمپ، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سبھی عائد کرچکے ہیں۔ افغان انٹیلی جنس کے سربراہ نے کابل میں تسلسل کے ساتھ کابل میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ افغانستان کے دوسرے حصوں میں سیکورٹی فورسز کی بڑھتی تعداد کے باعث طالبان ان علاقوں سے منتقل ہورہے ہیں۔ افغان حکومت کے حوصلوں کو پسپا کرنے اور عالمی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہلمند اور دیگر علاقوں سے کابل منتقل ہونے والے طالبان یہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ’’ان کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا جو ان دہشت گرد گروپوں کی حمایت یا انہیں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں‘‘ بیان واضح ہے اور اشارہ بھی کسی طرف ہے؟ مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ اگر حالات کی سمت اور رفتار یہی رہی تو کیا پاکستان میں عام انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوسکیں گے جبکہ ملک داخلی طور پر بھی عدم استحکام، انتشار اور سیاسی پولرائزیشن کا شکار ہے؟
ان سطور کی اشاعت تک امریکی صدر ٹرمپ کا پہلا سالانہ ’’اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ خطاب بھی ہوچکا ہوگا۔ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجتماع سے ہر سال یہ خطاب امریکی صدرکی آئینی ذمہ داری ہے جس میں وہ سال گزشتہ میں مختلف قومی معاملات میں اپنی پرفارمنس اور کامیابیاں بیان کرنے کے علاوہ آئندہ کیلئے اپنے پلان اور اہداف بھی بیان کرتا ہے جس کی روشنی میں وہائٹ ہائوس اور انتظامیہ اپنے منصوبے اور حکمت عملی تیار کرتی ہے۔ گوکہ صدر ٹرمپ کے اس خطاب کا متن اور تفصیل تادم تحریر سامنے نہیں آیا مگر کچھ ذمہ دار حلقوں سے صدر ٹرمپ کے پالیسی ایڈوائزر اسٹیفن ملر اور سیکرٹری راب پیٹر کی تیار کردہ تقریر کے مسودات کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ امیگریشن، ٹریڈ، انفرا اسٹرکچر (یعنی سڑکوں، پلوں کی تعمیر) کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نیشنل سیکورٹی کے عنوان سے افغانستان، شام کا ذکر بھی کریں گے۔ فارن پالیسی کے شعبے میں بھی صدر ٹرمپ اپنی کامیابی بیان کرنا پسند کرتے ہیں روزگار کے مواقع، معیشت اور تجارت کے میدان میں صدر ٹرمپ اپنی مثالی اور تاریخی کامیابیوں کو بیان کرکے کریڈیٹ حاصل کرنا کیسے بھول سکتے ہیں۔ 8؍ڈیموکریٹ کانگریس مینوں نے تو صدر ٹرمپ کے اس خطاب کو سننے کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کے مخالفین عوامی سطح پر بھی ٹرمپ کے خطاب کے مقابلے میں ایک ’’عوامی اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ نیویارک میں منعقد کررہے ہیں ہالی وڈ کے مشہور فلمساز مائیکل مور اور مزاحیہ اداکارہ وہپی گولڈ برگ سمیت متعدد اداکار اور سرگرم افراد نیویارک کے تاریخی مشہور ٹائون ہال میں ٹرمپ کے مخالفت میں امریکی عوام کی حقیقی حالت اور مسائل پر مبنی احتجاجی پروگرام پیش کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ انہوں نے ایک سال میں امریکہ کیلئے تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ 3؍دن کے حکومتی شٹ ڈائون کے بعد کے ایک سروے میں ان کی مقبولیت صرف 40فیصد ہے مگر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ ان کی موجودہ مقبولیت 55فیصد ہے اور مزید اضافہ ہورہا ہے۔ صدر کا یہ سالانہ خطاب اہم گردانا جاتا ہے اور امریکی میڈیا اور دیگر ادارے اس پر تبصرہ، تجزیہ، تنقید و تعریف اور ذاتی رائے قائم کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے اس خطاب میں افغانستان کے بارے میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے بیانات کے ذریعے افغان صورت حال کے بارے میں ابھی تک جو کچھ کہتے آئے ہیں اس سے پاکستان متفق نہیں ہے۔ حالیہ خاموش پاک۔ امریکہ رابطوں میں بھی ڈائیلاگ تو ہوا ہے مگر موقف تبدیل نہیں ہوئے امریکہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ 15؍سال کے عرصہ میں ایک لاکھ سے زائد جدید مسلح امریکی فوج کے علاوہ ایک ٹرلین ڈالرز کے اخراجات سے جس افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمہ میں امریکہ ناکام رہا وہاں پاکستان اپنے محدود وسائل کے ساتھ دہشت گردوں سے جنگ کرکے پرامن اور دہشت گردی سے پاک افغانستان امریکہ کی جھولی میں کیسے ڈال سکتا ہے؟ امریکہ میں بھارتی لابی اور نئی دہلی کی بھرپور کوشش ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے اس اہم خطاب میں افغانستان کے بارے میں امریکی حکمت عملی کا ذکر اور پاکستان پر الزامی تنقید بھی کریں صدر ٹرمپ کا پہلا سالانہ ’’اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ کا خطاب پاکستان کے لئے افغانستان کے حوالے سے کسی نئے چیلنج کا باعث بن سکتا ہے۔ ٹرمپ کا ایک اعلان آنے والے پاکستانی انتخابات اور سیاست کو یکسر تبدیل کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

تازہ ترین