سانحہ قصور کی مقتولہ زینب کے والد کا مطالبہ ہے کہ اس جرم میں ملوث قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے۔ اس سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اسی خواہش کا اظہار کرچکے اور اُنہوں نے عندیہ بھی دیا کہ اگر اس کے لیے قانون کو بدلنا پڑا تو وہ بھی کریں گے تاکہ سفاک مجرم کو نشان عبرت بنایا جا سکے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت داخلہ نے عبدالرحمٰن ملک کی صدارت میں موجودہ قانون میں تبدیلی کی تجویز دی تاکہ 14سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور انہیں قتل کرنے والے سفاک مجرموں کو سر عام پھانسی دی جا سکے۔ لیکن حیرت ہے کہ جب یہ معاملہ چند روز قبل زینب کے والد حاجی امین صاحب نے سپریم کورٹ کے سامنے اُٹھایا تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے مگر قانون ا سکی اجازت نہیں دیتا۔ اخبار میں یہ پڑھ کر مجھے تعجب ہوا کہ چیف جسٹس آف پاکستان یہ بات کیسے کر سکتے ہیں۔ جب قرآن و سنت ایسے مجرموں کو سرعام سزا دینے کی تعلیم دیتے ہیں، جب ہمارا آئین کہتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف نہیں بن سکتااس کے باوجود کوئی قانون کیسے حدوداللہ کے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ بن سکتاہے؟؟ ماضی میں کئی بار اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے مختلف قوانین کو اس لیے منسوخ کیا گیا کیوں کہ وہ قوانین آئین کی مختلف دفعات سے متصادم تھے اور اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ عدالت عظمیٰ نے تو عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے آئین میں موجود چند شقوں کو یا تو بے اثر کر دیا یا انہیں پارلیمنٹ سے اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کروا دیا۔ یہاں تو معاملہ ایسے قانون کا ہے جو قرآن و سنت سے ٹکراتا ہے۔ ایسے قانون کو تو سپریم کورٹ کو بغیر کسی تاخیر کے ویسے ہی منسوخ کر دینا چاہیے۔ نہیں معلوم شہباز شریف قصور واقعہ میں شریک سفاک مجرم کو سرعام پھانسی دینےکےلیے کب قانون میں تبدیلی کےلیے کوئی عملی قدم اٹھائیں گے لیکن بہتر ہو گا کہ اس معاملے کو چیف جسٹس خود نبٹائیں۔ جنگ اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق زینب کے والد سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا کہ زینب اُن کی بھی بیٹی تھی۔ یقیناً چیف جسٹس کی طرح اس سانحہ نے پورے پاکستان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور جب سفاک مجرم پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ اُس نے ایک نہیں بلکہ آٹھ دس بچیوں کے ساتھ زیادتی کی اور اُنہیں بے دردی کے ساتھ قتل بھی کر ڈالا۔ جب سے قصور واقعہ سامنے آیا اُس کے بعد تو میڈیا میں ہر روز ہی زیادتی کی نئی نئی خبریںسامنے آرہی ہیں۔ کبھی پنجاب تو کبھی بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں تو یہ بہت ہی ضروری ہے کہ ایسے سفاک مجرموں کو سرعام پھانسیاں دی جائیں۔ کسی عام شہری کے برعکس چیف جسٹس اس ملک کے انتہائی با اختیار فرد ہیں۔ جناب ثاقب نثار بھی خواہش رکھتے ہیں کہ ایسے سفاک مجرموں کو سرعام سولی پر لٹکایا جائے۔ اُن کے عہدہ اور ذمہ داری کو سامنے رکھا جائے تو چیف جسٹس صاحب کو زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دلوانےکے لیے کسی قانونی رکاوٹ کی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ جو رکاوٹ ہے اُسے یا تو خود دور کریں یا حکومت کو حکم دیں کہ فوری طورپر اُس غیر اسلامی اور غیر آئینی قانون کو ختم کیا جائے جو قرآن سنت کی تعلیمات کے مطابق سفاک مجرموں کو نشان عبرت بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ زینب کے والد حاجی امین صاحب سے تو میری درخواست ہو گی کہ سفاک مجرموں کو سر عام پھانسی دینےکےلیے وہ اپنی آواز بلند کرتےرہیںکیوں کہ اُن کا مطالبہ جائز، اسلامی اور آئینی ہے اور اس مطالبہ کے پورا ہونے کے ثمرات پورے معاشرےکےلیے ہوںگے۔
(بدھ 31 جنوری) کے جنگ اخبار میں یاسر پیرزادہ صاحب نے اپنے کالم میں ایک معروف صحافی کے زینب سے متعلق ٹوئٹس پر تبصرہ کیا ہے جس سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں۔
حرف آخر: اپنے تازہ کالم میں یاسر پیرزادہ نے میرے گزشتہ کالم ’’بے لگام میڈیا کا علاج‘‘ سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا ’’میرے اور انصار عباسی کے خیالات اتنے مل جائیں گے میں نے سوچا بھی نہ تھا، خدا خیر کرے!‘‘ جو پیرزادہ صاحب نے آج اپنے کالم ’’# بائیکاٹ ایل ایل ایف‘‘ میں لکھا اور خصوصاً الٹرا لبرلز کے بارے میں لکھا اُس سے مجھے بھی مکمل اتفاق ہے۔ اللہ خیر ہی کرے!!