• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندرونِ سندھ چہرے اسی طرح کھردرے ہیں۔ آنکھیں سپاٹ ہیں۔
کراچی میں جوان بیٹے سوکھے پتّوں کی طرح شاہراہوں پر بکھر رہے ہیں۔
پنجاب میں عفتیں پامال ہورہی ہیں۔
کے پی میں حیا برہنہ کی جارہی ہے۔
بلوچستان میں اشرف المخلوقات لاپتہ ہورہے ہیں۔
آزاد کشمیر میں سرحد کے اس پار کی گولہ باری سے انسان گھر بیٹھے لہو لہان ہورہے ہیں۔
گلگت میں خلقِ خداآئینی حیثیت سے بے خبر ہے۔
یہ سب کچھ مجھے چین سے سونے نہیں دیتا۔ میں اپنے آپ کو ذمّہ دار سمجھتا ہوں۔
جب میں اپنی تعلیم مکمل کررہا تھا۔ سوچتا تھا کہ بس ڈگری ملتے ہی میں ملک میں انقلاب لے آئوں گا۔ میں اسی لئے علم حاصل کررہا ہوں۔ میرے والدین اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر مجھے اسی لئے اعلیٰ تعلیم دلوا رہے ہیں کہ میں اس معاشرے میں تبدیلیاں لائوں۔ میری مملکت بھی مجھ پر اسی لئے سرمایہ لگا رہی ہے کہ میں اپنی دانش سے ایسی خدمات انجام دے سکوں کہ ہم ترقی یافتہ مہذب ملکوں کی صف کے قریب پہنچ جائیں۔
کیا ارادے تھے۔ کیا خواب تھے۔ میرے ساتھ جوان ہونے والوں۔ پڑھنے والوں کے بھی ایسے ہی عزائم تھے۔ ہم کافی ہائوسوں میں بیٹھتے تھے۔ کتابوں کی دُکانوں پر ملتے تھے۔ انہی خیالات کا تبادلہ کرتے تھے۔ لاہور کافی ہائوس کے باہر گھاس کے قطعے پر حبیب جالب کی آواز گونجتی تھی ’’ایسے دستور کو۔ صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا‘‘۔ پاک ٹی ہائوس میں ناصر کاظمی۔ عبداللہ ملک۔ اعجاز حسین بٹالوی۔ انتظار حسین۔ صفدر میر۔ افتخار جالب۔ انیس ناگی کے درمیان یہی باتیں ہوتی تھیں۔ حالات کیسے بدلیں گے۔ کراچی فریڈرک کیفے ٹیریا۔ فتحیاب علی خان۔ معراج محمد خان۔ علی مختار رضوی۔ ایسٹرن کافی ہائوس۔ زیلن۔ ابن انشا۔ جمیل الدین عالی۔ مظفر علی سید۔ سید سعید حسن۔ یہی رت جگے۔ یہی فکر مسلسل۔ کوئٹہ کلب یاد آتا ہے۔ دنینز پشاور۔ بہت سے چہرے۔ محسن احسان۔ خاطر غزنوی۔ طاہر محمد خان۔فصیح اقبال۔ محمد حسین پناہ۔ میر گل خان نصیر۔
کتنی بہاریں گزر گئیں۔ کتنی خزائیں بہت سے پھول ساتھ لے گئیں۔ کتنے زلزلے بلند عمارتیں گرا گئے۔ ڈھاکہ۔ سلہٹ۔ چٹاگانگ ہم سے روٹھ گئے۔ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل ڈھاکا میں ایک کمرے کے پردے ہٹا کر میں تیز بارش اور تند ہوا کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ 1971 ہے۔ میں پاکستان بچانے والوں کی کوششیں رپورٹ کرنے آیا ہوں۔ پاکستان کا ستارہ و ہلال کا پرچم تیز بارش اور ہوا کا مقابلہ کررہا ہے۔ پھر وہ بھیگ کر پھٹنے لگتا ہے۔ ہوا بار بار اس پر حملہ آور ہورہی ہے۔ یہ منظر مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔ میں پردے گرالیتاہوں۔
بہت سے منظر تو مجھ سے اب بھی نہیں دیکھے جاتے۔ مگر مجھ سے اب پردے بھی نہیں گرائے جاتے۔
مشرقی پاکستان۔ ہماری مملکت کا اکثریتی حصہ ہم سے الگ ہوگیا۔ ووٹ کے ذریعے علیحدہ ہوتا۔ پُرامن انداز میں جدا ہوتا تو شاید دل یوں نہ ڈوبتا۔ لیکن ہمارے ہزاروں بھائیوں کی جانیں گئیں۔ ہمارے دشمن کو موقع مل گیا۔ اس کے چھاتہ بردار اُترے۔ ڈھاکا ڈوب گیا۔ 90 ہزار فوجی۔ سویلین جنگی قیدی بن گئے۔
ہم مشرقی پاکستان کو بھول گئے ہیں۔ 1971 کے بعد پیدا ہونے والوں کو تو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ پاکستان کا ایک اور بازو بھی تھا۔ میں پہلے یہی سوچتا تھا۔ میرا یقین راسخ تھا کہ وطن ٹوٹ نہیں سکتا۔ ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔ جب تک ایک پاکستانی بھی زندہ ہے دشمن کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی۔ لیکن ایسا ہوگیا۔ اب یہ جملے سنتا ہوں کہ کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ تو میرے دل میں شدید چبھن ہوتی ہے۔ مجھے یہ جملے خشک درختوں کے کھوکھلے تنے لگتے ہیں۔
اتنے بڑے سانحے کے بعد دل گداز۔ آنکھیں نم اور پیشانیاں عجز کا مظہر ہونی چاہیے تھیں۔ لیکن ہم تو پہلے سے زیادہ خود غرض۔ بے حس۔ زیادہ نعرے باز ہوگئے ہیں۔ چند سو گھرانے بہت زیادہ خوشحال۔ پرجوش ہیں۔ دو دو ملکوں کی شہریت ان کے پاس ہے کہ اب کے کوئی سقوط ہوگا تو وہ اپنے نئے اختیاری ملک میں چلے جائیں۔ جن کی چھت اب بھی ٹپکتی ہے۔ جو اب بھی کرائے کی کھولیوں میں رہتے ہیں۔ وہ اب بھی اسی طرح پُرعزم ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ وہ اسی مملکت سے وفادار ہیں۔ اسی کو کینیڈا۔ امریکہ۔ دُبئی بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن فیصلہ کرنے والی طاقتیں ان کا ساتھ نہیں دیتیں۔
میں اتنا حساس ہوں۔ اتنا محسوس کرتا ہوں۔ خود کو اجتماعی زوال کا ذمّہ دار سمجھتا ہوں۔ ہمارے حکمران ہمارے رہنما ایسا کیوں نہیں سمجھتے۔ کتنے الیکشن ہوچکے۔ کتنی انتخابی مہمیں چل چکیں۔ ہمارا روپیہ نیچے ہی جارہا ہے۔ ووٹ لینے والوں کے گھر بڑے ہورہے ہیں۔ ووٹ دینے والوں کے چھوٹے ہورہے ہیں۔ یہ آس پاس کے بنگلوں کو بھی اپنی ملکیت میں لے رہے ہیں۔ اب یہ کوٹھیوں میں نہیں اسٹیٹ میں رہتے ہیں۔ الیکشن ان کے لئے فصل پکنے۔ گندم کی کٹائی کے مترادف ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ نئے گھر۔ نئی گاڑیاں۔ نئی بیویاں ہوتی ہیں۔ ایک الیکشن اور آرہا ہے۔ ایک اور فصل کٹے گی اور نئی گاڑیاں اور نئے بنگلے۔
میں نہ جانے یہ ٹھیک سوچتا ہوں یا غلط کہ اب جہاں پاکستان ہے۔ یہاں پاکستان کی تحریک چلی ہی نہیں تھی۔ ان علاقوں میں زیادہ زور سے چلی۔ جنہیں پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا۔ موجودہ پاکستان کے علاقوں کو یہ نعمت قربانیوں کے بغیر مل گئی یا ان پر مسلط کی گئی۔ بہرحال یہ پاکستانیت کے عشق میں مبتلا نہیں تھے۔ یہاں اس طرح جلوس نہیں نکلتے تھے۔ یہاں یہ نعرے اس شدّت سے نہیں لگتے تھے۔
بٹ کے رہے گا ہندوستان
بن کے رہے گا پاکستان
اس کے بعد یہ ہونا چاہئے تھا کہ پاکستان بنانے والے پنجاب۔ سندھ۔ سرحد۔ بلوچستان۔ فاٹا میں اپنے ان میزبانوں کی قدر کرتے۔ ان کی مشکلات سمجھتے۔ انہیں پاکستان کے اپنانے میں کردار ادا کرتے۔ لیکن ہم نے ان کے بزرگوں کو سرحدی گاندھی۔ سندھی گاندھی اور بلوچی گاندھی کے ناموں سے نوازا۔ ان کو قریب لانے کی بجائے دُور کرتے رہے۔ان کی حب الوطنی پر شک کرتے رہے۔
اب بھی پاکستان کے نام سے ساری سرگرمیاں اسلام آباد اور آس پاس ہوتی ہیں۔ کرکٹ میچ موبائل فون اور ٹی وی چینلوں کے علاوہ پاکستان کے سارے حصّوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ کوئی ایسا قومی لیڈر نہیں ہے جس کے دل کے ساتھ پنجاب۔ سندھ۔ بلوچستان۔ کے پی کے۔ آزاد کشمیر۔ گلگت۔ فاٹا کے دل بھی دھڑکتے ہوں۔ کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو سب علاقوں میں یکساں مقبول ہو۔ اب کیا کرنا چاہیے۔ تحریکِ پاکستان پھر سے چلنی چاہئے۔
ہمیں دل اور دماغ جیتنے چاہئیں۔ ایک دوسرے کے علاقوں میں طلبہ و طالبات کے قافلے جائیں۔ ادیب۔ شاعر آپس میں ملیں۔ ایک دوسرے کا درد بانٹیں۔ اب تو بہترین موٹروے بن گئے ہیں۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ عام پاکستانی ہی قربتیں بانٹ سکتے ہیں۔ یہ چند حکمراں گھرانے تو دوریاں ہی پیدا کرسکتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے۔

تازہ ترین