• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں اس درویش سے بڑھ کر شاید ہی کوئی آزادیٔ اظہار یا حریت فکر کا علمبردار ہو گا، اس لیے کہ آزادیٔ اظہار محض ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک سوچ اور فکر ہے ایک جست یا مہمیز ہے پسماندگی سے تہذیبی بلندی کی طرف۔ جس سماج میں فکری آزادی نہیں ہو گی اس میں جمود، کنفیوژن اور فکری گھٹن سایہ فگن رہے گی۔ اس سلسلے میں مغربی اقوام کے ارتقائی تہذیبی سفر پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے کبھی وہ اقوام بھی ہماری طرح باہمی سر پھٹول کر رہی تھیں یہ اُن کے اہل دانش، شاعر اور ادیب تھے جنہوں نے اپنی قلمکاری سے عامۃ الناس کے اذہان میں ایک شعوری انقلاب برپا کر دیا مشکلیں انہیں بھی درپیش ہوئیں، اہل مذہب اور روایتی اپروچ کے علمبرداروں نے ان کے خلاف فتاویٰ کفر جاری کرنے سے لے کر جو کارروائیاں ممکن تھیں وہ سب کیں لیکن اہلِ دانش نے کمال حکمت و فراست سے ان ہونی کو ہونی اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
آج مسلم ورلڈ میں بالعموم اور اس مملکت خداداد میں بالخصوص فکری گھٹن اور جبر کو ملاحظہ کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، قدم قدم پر رکاوٹیں اور بندشیں ہیں، سوسائٹی حکومتی گرفت سے زیادہ روایت پرستوں یا اُن کے نادیدہ آقاؤں کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ جدت افکار کے ایک ایک فقرے پر خوف کے پہرے ہیں نہ جانے کس لفظ پر پکڑ ہو جائے۔ احمد فراز کے الفاظ میں ’’جانے کب کون مار دے مجھے کافر کہہ کر شہر کا شہر مسلماں بنا پھرتا ہے‘‘۔ ہاں البتہ جو جہالت کے پروردہ ہیں اُن کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں وہ پورے شہر میں دندناتے پھرتے ہیں جس کی چاہتے ہیں پگڑی اچھالتے ہیں ۔ اس جھوٹ اور چوری کے بعد سینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ یوں کھڑے ہیں کہ چہرے پر شرمندگی کے آثار تک نہیں۔
وطنِ عزیز کی 70سالہ تاریخ میں ایک رونا رویا جاتا ہے کہ کیسے کیسے سانحات رُو پذیر ہوتے رہے ہیں مگر ملزم پکڑے نہیں جاتے نشاندہی تک نہیں ہونے پاتی کہ یہ گھناؤنی واردات کس ظالم نے کی ہے۔ خدا خدا کر کے اگر کسی کی محنت یا جانفشانی سے کہیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کنفیوژن پھیلانے کے ٹھیکیدار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
عام گمان یہ ہے کہ اس وقت ہمارا میڈیا آزاد ہے لیکن اگر باریکی سے جائزہ لیا جائے تو یہ آزادی یکطرفہ ہے۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ایک امریکی اور سوویت شہری کا مکالمہ سنایا تھا۔ امریکی نے کہا کہ مجھے اپنے ملک میں اتنی آزادی ہے کہ میں وائٹ ہاؤس کے سامنے یہ تقریر کر سکتا ہوں کہ ’’پریذیڈنٹ ریگن آپ کی پالیسیاں عالمی امن کے لیے سخت نقصان دہ ہیں‘‘ اس پر سوویت شہری بولا کہ اس میں کون سی ایسی بات ہے یہ الفاظ تو میں برژنیف کے منہ پر کہہ سکتا ہوں کہ ’’ مسٹر پریذیڈنٹ ریگن کی پالیسیاں عالمی امن کے لیے سخت نقصا ن دہ ہیں‘‘۔
الحمد للہ آج ہمارا میڈیا اس قدر آزاد ہے کہ جمہوری حکومت کے لتے لیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے چینلز پر موجودہ یا سابقہ وزرائے اعظم کی ڈمیاں بنا کر ان کی تذلیل کی جا سکتی ہے کہیں کوئی اعتراض نہیں۔ کیا یہ وتیرہ طاقتور اداروں کے متعلق اپنانے کا سوچا جا سکتا ہے؟
وہ جہادی لشکر اور تنظیمیں جنہوں نے پوری دنیا میں وطنِ عزیز کی شہرت کو داغدار کر رکھا ہے کس میں یارا ہے کہ اُن کی کارکردگی رپورٹس کا جائزہ پیش کر سکے۔ مذہبی جتھوں اور تنظیموں سے ہمیں ایک سو ایک شکایات ہیں کیا ہمیں یہ اجازت ہے کہ ہم ان پر چار لائنیں لکھ سکیں۔ حد تو یہ ہے کہ آٹھ بچیوں کے ریپ اور سنگدلانہ قتل کرنے والے ملزم عمران علی نقشبندی کی ذہنی ساخت اور مذہبی پس منظر کا جائزہ پیش کرنے کی بھی ہمیں اجازت نہیں ہے ۔ اس پر ڈھٹائی کے ساتھ دہائی ہے کہ میڈیا بہت آزاد ہے۔
جی ہاں میڈیا آزاد ہے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے، میڈیا آزاد ہے عوامی حاکمیت کا جنازہ نکالنے کے لیے، میڈیا آزاد ہے آئین شکنوں کو تحفظ دینے کے لیے، نام نہاد صحافی کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ منتخب حکومت کی اچھی کارکردگی کو بھی جتنا آلودہ کر سکتا ہے اُس سے زیادہ آلودہ کر ے۔ قصور کا سانحہ بہت دردناک ہے لیکن ایسا ہی سانحہ اگر مردان میں وقوع پذیر ہوجائے تو درد کی وہ حدت محسوس نہیں ہونی چاہئے۔ عاصمہ ہو یا اسما کیا وہ قوم کی بچیاں نہیں ہیں؟ جس 16سالہ بچی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں عریاں کیا گیا اس پر میڈیا میں وہ غم و غصہ کیوں نہیں؟ ولی خان یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم مشال خان کو توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر جس اذیت کے ساتھ قتل کیا گیا اُن قاتلوں کا سرغنہ پی ٹی آئی کا کونسلر عارف خان آج تک گرفتار نہیں کیا جا سکا تو اس پر میڈیا کی چیخ و پکار کیوں سنائی نہیں دیتی ہے؟ 37 اکاؤنٹس کی جعلی فہرستیں پیش کرنے والا، مافیا اور گینگز کی کہانیاں سنا کر عمران علی نقشبندی کو محض مہرہ ثابت کرنا چاہتا ہے تو ایسے نام نہاد صحافی کو کیوں نشانِ عبرت نہیں بنایا جاتا۔ حضور اس مظلوم قوم پر رحم فرمائیں اس قوم کو جہالت کے ٹیکے لگانے والوں کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں ہے اب بس کر دیں۔ اس مظلوم قوم کو شعوری سفر کی شاہراہ مستقیم پر آگے بڑھنے دیں۔
شعبہ صحافت ایک ذمہ دارانہ انسانی سوچ اور جذبے کا نام ہے، نفرتیں مٹانے اور محبتیں پھیلانے کا نام ہے، یہ بدی کے خلاف حق کا پیغام ہے براہِ کرم اس رام کا نام بدنام نہ کرو۔ کوئی بھی قلمکار اتنی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتا ہے یا سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ کرتا ہے تو اسے اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ اگر وقت اور حالات اس کی دانستہ دروغ گوئی کو ثابت کر دیتے ہیں تو ایسے شخص کے خلاف کماحقہ کارروائی ہونی چاہئے۔ میڈیا چینلز پر ہم نے منافرتوں کے ایسے ایسے بیوپاری دیکھے ہیں کہ انسانیت شرم سے جھک جائے مگر وہ اپنے تئیں سینئر تجزیہ کار اور دانشوری کے پہاڑ بنے پھرتے ہیں۔ ایک ذمہ دار قوم بننے کے لیے ہماری گزارش ہے کہ حریت فکر اور آزادیٔ اظہار کا بہر صورت بول بالا ہونا چاہیے لیکن اس کی آڑ میں گندگی پھیلانے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ صحافت کے لیے جو ضابطہ اخلاق ہے اس کی پابندی سب پر لازم ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔ ہمیں آزادی اظہار جتنی عزیز ہے انسانی حقوق بھی اتنے ہی محبوب ہیں۔

تازہ ترین