• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آج کل اہلی اور نااہلی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ کسی کو سرٹیفائیڈ اہل قرار دے دیا جاتا ہے تو کوئی تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کے باوجود نااہل قرار پاتا ہے۔ نااہلی کا سلسلہ ارکان پارلیمنٹ سے ہوتا ہوا اب پولیس تک پہنچ چکا ہے۔ چند روز پہلے تک تعریفوں میں گھری ہوئی خیبر پختونخوا پولیس کی کارکردگی سب کے سامنے آچکی ہے۔ پنجاب پولیس اور پنجاب حکومت کو ہدف تنقید بنانے والے خیبر پختونخوا پولیس کی نااہلی پر خاموش نظر آتے ہیں۔ زینب کیس کو جواز بنا کر پنجاب پولیس کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔زینب کے قاتل کو گرفتار نہ کرنے کی صورت میں آئی جی پنجاب کو ہٹانے کی دھمکی دی گئی۔ مگر عاصمہ اور نقیب کیس میں معیار مختلف نظر آتے ہیں۔ زینب کیس کے بعد پورے صوبے میں انتشار کی لہر پھیلا دی گئی۔ قصور کے چند شر پسند عناصر نے جو کچھ سرکاری املاک کے ساتھ کیا، اس پر مذمت چھوٹا لفظ ہے۔ مگر آج خیبر پختونخوا پولیس پر کوئی شخص بات کرنے کو تیار نہیں۔ خیبر پختونخوا کی ’’اہل‘‘ پولیس کے حوالے سے چند چشم کشا حقائق قارئین کے گوش گزار کروں گا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پنجاب کے کسی بھی ادارے کا خیبرپختونخوا کے کسی ادارے سے موازنہ کرنا بیوقوفی ہے۔ پنجاب میں جتنی اصلاحات گزشتہ دس برس میں متعارف کرائی گئیں، پچھلے 70برس میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں۔ اصلاحات کرنا تو دور کی بات ہے اصلاحات کے بارے میں سوچنا بھی بڑی بات ہوتی ہے۔ ہمیشہ عظیم ذہن اصلاحات پر توجہ دیتے ہیں۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اصلاحات کی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا ہر مہینے جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ وہاں کا کوئی محکمہ بھی دیکھ لیں، سندھ کی بیڈ گورننس کو بھول جائیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دیگر محکموں کی نسبت پولیس محکمہ کچھ نہ کچھ کام کررہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خیبر پختونخواپولیس کی مثال اندھوں میں کا نا راجا والی ہے۔ جس پولیس کے بارے میں ملک کا چیف جسٹس کہہ دے کہ یہ ایک نااہل پولیس ہے۔ ایک ایسی پولیس جس کے پاس تفتیش اور تحقیقات کا کوئی مروجہ طریقہ موجود نہیں ہے تو اس پر کیا کہا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں گزشتہ دس برس کے دوران ہر ادارے میں اس حد تک بہتری ہوئی ہے کہ اس کے مقابلے میں پولیس میں ہونے والی اصلاحات اور بہتری کم محسوس ہوتی ہے۔ پنجاب کے تھانوں میں ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن ہی بہت بڑا کارنامہ ہے۔ پنجاب پولیس کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ یہ ایک سیاسی پولیس ہے۔ کیونکہ گزشتہ 60برس کے دوران اسے ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔مگر یہ نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایسا نہیں تھا۔ خیبر پختونخوا کے 70فیصد علاقے پر تو دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہولڈ ہے۔ اس لئے جو کام پنجاب میں پولیس کرتی رہی وہ خیبر پختونخوا میں دیگر ادارے سر انجام دیتے رہے۔ مقصد دونوں کا سیاسی مداخلت ہی تھا۔ پنجاب کا کوئی ایک بھی ضلع ایسا نہیں ہے، جس کا پولیس سربراہ یہ بات کہہ سکے کہ اسے فلاں کام کے لئے وزیراعلیٰ ہاؤس سے دباؤ ڈالا گیا۔ وزیراعلیٰ کا تو ڈی پی او اور ڈی سی سے براہ راست بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جس میں پنجاب میں2008سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب خود ڈی پی اوز کو فون کر کے سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لئے دباؤ ڈالنے کا کہتے تھے۔ آج بھی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ایک ایس ایچ او کو تعینات نہ کرنے پر محمد علی بابا خیل جیسے دیانتدار پولیس افسر کو سی سی پی او شپ سے ہٹا کر گھر بھیج دیتے ہیں۔ ڈیر ہ اسماعیل خان تو ہمارا ہمسایہ شہر ہے۔ وہاں آج بھی پولیس افسران سیاسی سفارشوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ باقی سپریم کورٹ میں دوران سماعت مثالی پولیس کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی ہے۔ اگر پنجاب فرانزک لیب نہ ہو اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن بیرون ملک فرار ہونے والے قاتل کی گرفتاری کے لئے معاونت نہ کریں تو خیبر پختونخوا پولیس آئندہ ایک سال بھی ملزمان تک نہیں پہنچ سکتی۔ دکھ ہوتا ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو بغیر تحقیق کئے پیچھے چل پڑتی ہے۔ کسی نے37 اکاؤنٹس کی خبر دی تو تحقیق کے بجائے دوسرے نے 140کی خبر دے دی۔ کوئی دعویٰ کردے کہ ہماری پولیس مثالی ہوچکی ہے تو ہم سب یقین کرلیتے ہیں۔ آئی جی پنجاب کو چاہئے کہ تمام اضلاع کے ڈی پی اوز، آر پی اوز اور سی پی اوز پر لازم قرار دے دیں کہ سوشل میڈیا پر اپنی کارکردگی کے حوالے سے مثبت مہم چلائیں۔ گراؤنڈ پر تو پنجاب پولیس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے مگر سوشل میڈیا پر بھی موثر حکمت عملی اپنا نے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا پولیس صرف سوشل میڈیا پر مثالی ہے، وگرنہ گزشتہ پانچ برس میں اس پولیس نے آج تک ایسا کوئی کام نہیں کیا، جس پر اسے شاباش دی جاسکے۔ اس میں پولیس یا کسی افسر کی کمزوری نہیں ہے، بلکہ خیبر پختونخوا پولیس میں بھی انتہائی محنتی افسران موجود ہیں، اگر کہیں کوئی کمی ہے تو انتظامی صلاحیتوں کی ہے۔ چھ، چھ ماہ کے لئے سندھ او ر خیبر پختونخواکو شہباز شریف کے حوالے کردیں، نتائج سب کے سامنے آجائیں گے۔
صرف پولیس ہی نہیں اور بھی کسی محکمے کا پنجاب سے موازنہ کرکے دیکھ لیں۔ شہبازشریف کی دیکھا دیکھی عمران خان کو بھی شوق چڑھا تھا کہ خیبر پختونخوا میں بھی کمپوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ کے پروجیکٹ پر کام کیا جائے۔ مگر جو ریونیو کا سسٹم موجود تھا، اس کا بھی ستیاناس ہوگیا ہے۔بنوں کے 100،100سال پرانے ریکارڈ کو ہی غائب کردیا گیا ہے اور جہاں ریکارڈ موجود ہیں وہاں ایسی غلطیاں کی گئی ہیں کہ شہری بددعائیں دے رہے ہیں اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔ پنجاب کے کمپیوٹرائزڈلینڈ ریکارڈ میں بھی بہت مرتبہ خامیاں سامنے آئی ہیں۔ ظاہر ہے کمپیوٹر GIGOکے اصول پر کام کرتا ہے مگر جب جب نشاندہی کی گئی سخت ایکشن لیا گیا اور آج کا کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ ایک بہترین نظام بن چکا ہے۔ اس خاکسار نے ایک سال قبل کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ میں خامیوں پر کالم لکھا، جس میں اہم چیز اس سسٹم کا سافٹ وئیر تھا۔ تمام خامیوں کی درستی کے ساتھ ساتھ آج پورا سافٹ وئیر ہی اپ گریڈ کردیا گیا ہے۔ یہ ایکشن کا لیول ہے۔ میٹرو کو ہی دیکھ لیں۔ شہباز شریف نے چار سال میں چار میٹرو، اورنج لائن بنا دی مگر خیبر پختونخوا حکومت ابھی تیاریاں کررہی ہے۔ حتیٰ کہ پشاور میٹرو کے لئے جس افسر کو سی ای او لیا گیا ہے، وہ بھی لاہور میٹرو میں کام کرتا رہا ہے۔بات یہ ہے کہ شہباز شریف اور پنجاب حکومت پر کھل کر تنقید کرنی چاہئے۔ مگر اس تنقید کا مقصد اصلاح ہو نہ کہ تخریب۔ خواہش ہے کہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور پنجاب کا سروے کرایا جائے اور تقابلی جائزے میں جو اعداد وشمار سامنے آئیں، وہ عمران خان نیازی صاحب کے سامنے رکھیں تو انہیں اندازہ ہو کہ اصل حقائق کیا ہیں؟ خیبر پختونخواپولیس کی نااہلی کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کی کارکردگی کا پول بھی کھل جائے گا۔

تازہ ترین