• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو ممالک کی جنگ کی کوریج کےلیے جانے والے دو صحافیوں کی کوریج سے ریڈیوسننے والا ہرکوئی متاثر تھا۔کیونکہ جب ان کی رپورٹس آن ایئر ہوتیں یا خصوصی بلیٹن کے ذریعے ان کی لائیو رپورٹس نشر کی جاتیں۔گولیوں کی بوچھاڑ،طیاروں کی اڑان گھن گھر ج، ٹینکوں کی موومنٹ اور بموں کے پھٹنے کی آوازیں ان کی رپورٹس میں واضح ہوتیں اور لوگ نہ صرف جنگ کی رپورٹس سے باخبر رہتے بلکہ ان دونوں صحافیوں کی پرجوش آواز اور لائیو کوریج پر دل ہی دل میں انہیں خوب داد یتے اور جب آپس میں بیٹھ کرجنگ پر بحث کرتے تو جنگ سے زیادہ ان دونوں صحافیوں کی بہادری پر ان کی دل کھول کر تعریف کرتے ۔دراصل یہ ایک غیر ملکی فلم کی کہا نی تھی جو صحافت کے مو ضو ع پر بنا ئی گئی تھی چونکہ میںنے اس فلم کو دیکھا نہیں بلکہ اس کے بارے میں صرف پڑھا ہے ،اس لیے یہ تو نہیں بتا سکتااور نہ میں خو د جان سکا ہوں کہ فلم کے پروڈیوسر یا ڈائریکٹر نے کیا سوچ کر یہ فلم بنائی تھی۔ کیونکہ آگے جا کر معلوم ہوتا ہے کہ فلم میں صحافیوں کا کردار ادا کرنے والے دونوں کردار فریکلی جنگ کے میدان میں نہیں ہوتے بلکہ ایک بند کمرے میں بیٹھ کر ایک ٹیپ ریکارڈرکے ذریعے گولیوںکی ترتراٹ، طیاروں کی اڑان کی گھن گھر ج ،ٹینکوں کی موومنٹ اور بمو ں کے ریکارڈیڈ دھماکے سنا تے اور اسی ریکارڈیڈ آواز پر اپنی آواز شامل کرکے یہ بتانے کی کوشش کرتے کہ وہ جنگ کے میدان میں لائیو کوریج کررہے ہیں،لیکن بعد ازاں ان کا یہ فر ا ڈپکڑا جا تا ہے اور وہ نہ صر ف اپنی ملا زمت سے ہا تھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ ان کی ویسے بھی بڑ ی’’ آئو بھگت ‘‘ کی جا تی ہے ۔مجھے ایک اور فلم کے بارے میں بھی کسی دوست نے بتایا کہ ایک دو سر ی فلم میں ایک صحافی خودایسے حالات پیدا کرتا جوخبر بن سکتےتھے اور پھر اس کی خبربریک کرکے داد حاصل کرتا۔ لیکن بعدازاں اس کا ایک دوست اس کی اس چالاکی کا راز افشاں کردیتاہے کیونکہ وہ کئی ایسے واقعات کا عینی شاہد تھا( بر ا ئہ مہر با نی عینی شا ہد اور ڈ ا کٹر شا ہد میں فر ق رکھیئے گا) ۔جواس کے دوست نےپہلے خود ہی رونماکیے ہوئےتھے یا خبرکے بعد ان کو خود ہی کروا دیتاتھا۔تو یہ بات ہورہی تھی دو فلموں اوران کے کرداروں کی۔ لیکن پاکستان کی صحافت کی اگر بات کروں تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری اقدارکے فروغ کےلیے، سخت سے سخت ڈکٹیٹر کے خلاف آوازاٹھانےاور حقائق کو عوام کے سامنے لانےمیں ہماری صحافت کا بڑا کرداررہاہے اوراس کے لیے صحافیوں نے بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔ اس کے باوجود ہماری صحافت یا صحافیوں پر اگرکوئی تنقید کی جاتی ہے تو اس میں کچھ ذمہ داری ہمارے قارئین یا ناظرین پر بھی عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ ہمارے قارئین اورناظرین اس بات پر واہ واہ کرتے اور اسے سچ سمجھتے ہیں جسے وہ خو د دیکھنا اور سنناچاہتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے سینئر جرنلسٹ عمر چیمہ یا جنگ گروپ ہے کہ جب پاناما کے حوالے سے خبریں شائع ہوئیں تو اپوزیشن اور ان قارئین و ناظرین نے کھل کرداد دی جو حکومت اور میاں برادران کو بدنام کرنے میں دلچسپی رکھتے یاا نہیں نقصان اٹھاتے دیکھناچاہتےتھے۔ جبکہ حکومت اوراس کے حلیف اس پر کھل کر تنقید کرتےرہے کہ پاناما کی خبریں شائع کرکے صحافی نے ایک نان ایشو کو خواہ مخواہ کا ایشو بنادیا ہے ۔اس طرح جب اس صحافی نے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کی تیسری شادی کی خبر دی تو پہلی خبرپر تنقید کرنے والے خوش ہوگئے اور پہلی خبرپر تالیاں بجا بجا کر داد وتحسین دینے والے سخت نالاں ہوگئے۔اوراسے زرد صحافت قرار دینےلگے۔ میں اس بات کااعتراف بھی کرتا ہوں کہ ہما رے صحافیوں میں بھی کچھ خامیاں ضرور ہوںگی۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ ہماری صحافت اور صحافیوںنے اس میدان میں جیلیں بھی بھگتی ہیں،کوڑے بھی کھا ئے ہیں اور جانیںبھی قربان کی ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا اچھا معیار مزید بہترین معیار میں تبدیل ہوگا اس کے لیے ہم سب کو کردارادا کرنا ہے۔اگر کہیں فلمی طرز کی صحا فت نظر آتی ہے تووہ لو گ بھی وقت کے سا تھ ساتھ ایکسپو ز ہو ںگے اور صحا فت کے معیا ر کے حو ا لے سے کو ئی شکا یت پید ا نہیں ہو گی۔

تازہ ترین