• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمر کا درد ۔ لازمی فوری علاج کی ضرورت پارٹ II ...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان

پچھلے کالم میں قارئین ہر دلعزیز روزنامہ جنگ ، روزنامہ دی نیوز، کیلئے میں نے کمر کی تکلیف دہ بیماری، ناقابل برداشت درد کے بارہ میں کچھ حقائق بیان کئے تھے۔ حسب توقع لاتعداد قارئین نے یہ کالم سراہا اور مجھے تمام ذرائع سے اَپنے خیالات اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میرے ایک پچھلے کالم کی طرح جو میں نے ذیابطیس پر ماہرین سے مشورہ کرکے لکھا تھا یہ کالم بھی بے حد سراہا گیاہے۔ مجھے اُمید ہے ان دو کالموں میں بیان کردہ حقائق و معلومات کی روشنی میں وہ اس تکلیف و مرض سے خوفزدہ نہ ہونگے اور جلد علاج کروا کر ایک آرام دہ زندگی گزار سکیں گے۔ ہمیں یہ بات ہر وقت یاد رکھنا چاہئے کہ فرمان الٰہی کے مطابق جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی شفا دیتا ہے اور وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور موت کے بعد وہی ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا۔
جیسا کہ پچھلے کالم میں عرض کرچکا ہوں۔ کمر میں پہلے ہلکا سا درد شروع ہوا اور اچانک دائیں کولھے میں، ران میں اور پنڈلی میں شدّت اختیار کرگیا۔ بات قابل برداشت سے ناقابل برداشت تک جا پہنچی۔ سُن رکھا تھا کہ اس قسم کا درد فرعون مصر کو کبھی نہ ہو اتھا اور اس قسم کا درد صرف دردِدل رکھنے والے خوش قسمتوں ہی کے حصّے میں آتا ہے۔ میں تمام علاج کراتا رہا مگر افاقہ نہیں ہوا اور میں نے یہی سوچا کہ نزلے زکام، بخار کی طرح کچھ دن دوائیں کھانے سے اس تکلیف و درد سے نجات مل جائے۔ اس دوران فیصل آباد میں واقع مشہور پنجاب میڈیکل کالج کا سالانہ کنووکیشن 26 نومبر کو منعقد ہوا اورپرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ریاض حسین داب صاحب، چےئر مین آرگنائزنگ کمیٹی پروفیسر ڈاکٹر میاں فاروق اور تمام نئے گریجوئیٹنگ ڈاکٹرزکی پرخلوص و محبت آمیز خواہش پر میں نے وہاں بطور چیف گیسٹ جانا بطور بخوشی قبول کیا۔ سوچئے میں اس خلوص و محبت کے اظہار کو کس طرح نظر انداز کرسکتا۔ اور جب مجھے یہ علم ہوا کہ وہاں میرے نہایت عزیز دوست، ملک کے مایہ ناز ماہر نفسیات، اور پنجاب یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسیزکے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ملک مبشر بھی موجود ہونگے تو میرے لیئے مزید قبولیت اور جانے کی وجہ بن گئی ۔کیونکہ اسلام آباد سے وہاں کے لئے کوئی فلائٹ نہیں تھی اسلئے مجبوراً بذریعہ کار جانا پڑا۔ گاڑی بہت آرام دہ تھی لیکن ساڑھے تین گھنٹے جانا اور ساڑھے تین گھنٹے آنے کا بوجھ یہ کمزور اور عمر رسیدہ کمر برداشت نہ کرسکی۔ واپس آکر حالت بہت بگڑتی چلی گئی اور مجبوراً ہسپتال جانا پڑا اور ایمرجنسی میں یہ حساس آپریشن کرانا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے کہ نہ ہی آپریشن سے یا اس کے نتائج کے بارہ قطعی کوئی خوف و فکر و پریشانی نہیں ہوئی۔ اور ڈرنے کی وجہ بھی نہیں کیونکہ جو کچھ آپ کو پیش آتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے۔
میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فیصل آباد سے واپس آنے پر میرا دایاں پاؤں حرکت کرنے سے قاصر ہوگیا اور میرے لئے کھڑے ہونا یا چلنا نا ممکن ہو گیا۔ ماہر ڈاکٹروں کی ہدایت پر دوسرے روز ہی شفا انٹرنیشنل ہسپتال لیجایا گیا۔ اس وقت تک میں مزید تکلیف کا شکار ہوگیا تھا ۔ پہلے دو ٹسٹ کئے گئے جن کو میڈیکل اصطلاح میں NCS اور EMG یعنی (Nerve Conduction Study) اور (Electro Myo Graphy) کہا جاتا ہے۔ یہ کچھ تکلیف دہ ٹسٹ ہوتے ہیں مگر مرض کے درد سے بہت کم۔ اسی وقت MRI بھی کمر کا کرایا گیا اسکو Magnetic Resonance Imaging کہتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کے مایہ ناز سرجن /ڈاکٹر خلیق الزماں، ان کی بیگم پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ خلیق، شفا کے ماہر ڈاکٹر اسمٰعیل کھتری اور کے آر ایل کے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر مغیث اکرام، میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر سلیم قریشی اور ہسپتال کے ڈی جی ڈاکٹر کامران مجید نے تمام ٹسٹ خاص کر ایم آر آئی کے ٹسٹ دیکھ کر نتیجہ اخذ کیا کہ میں بری طرح Prolapsed Disc کا شکار ہوگیا ہوں۔ ڈاکٹر خلیق نے اس کے بارہ میں مجھے سمجھایا کہ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے درمیان خدا تعالیٰ نے نرم ربر یا چیونگم کی طرح لچکدار پیڈ یا گدیاں رکھی ہیں جو کہ شاک یعنی جھٹکے کو جذب کرلیتی ہیں۔ یہ گدیاں یا پیڈ ہماری کمر میں لچک بھی پیدا کرتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان گدیوں کی لچک کم ہوتی جاتی ہے بالکل اسی طرح جسطرح پرانا ربر سخت اور بے لچک ہوجاتا ہے۔ گدیوں کی لچک ختم ہونے سے یہ خطرہ بڑھتا جاتا ہے کہ یہ ذرا سے جھٹکے سے ریڑھ کی ہڈی کے گریوں سے پھسل جاتی ہے اور قریب سے گزرتی ہوئی رگ پر ملبہ کی طرح گر کر اس پر سخت دباؤ ڈالتی ہے۔ ڈاکٹر خلیق الزماں اور بیگم ڈاکٹر ثمینہ خلیق نے مجھے بتایا کہ یہ وہ رگیں ہوتی ہیں جو کہ ہماری ٹانگوں کے پٹھوں کر حرکت میں رکھتی ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ آفت ناگہانی میری اس رگ پر آگری ہے جو میرے دائیں پاؤں کی حرکت میں کارفرما تھا۔ اس کو میڈیکل زبان میں Sciatic nerve کہتے ہیں۔ یہ ہمارے بدن کی سب سے بڑی رَگ یا نَرو ہے۔ تمام ٹسٹوں کے بعد مجھے بتایا گیا کہ فوراً آپریشن کے بعد میری متاثرہ رگ کو اس ملبہ اور دباؤ سے نکالنا ہے کیونکہ تاخیر سے رگ کے بچنے کے امکانات معدوم ہوتے جائینگے۔ اُسی رات آپریشن کیا گیا جو ڈاکٹر خلیق الزماں اور ان کی بیگم ڈاکٹر ثمینہ خلیق نے انجام دیا اور اس پھسلی ہوئی گدی (Prolapsed disc) کوجو میری رگ کو دبا رہی تھی نکال دیا گیا۔ یہ آپریشن کمرکے بالکل نچلے حصّہ پر کیا گیا جس کو میڈیکل ٹرم میں L4/L5 کہا جاتا ہے۔ آپریشن طویل اور مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور ڈاکٹروں کی مہارت نے اس کواتنا آسان کردیا جیسا کہ آپ نے بس ناخن کاٹے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے کرم اور پوری قوم کی دعاؤں سے اگلے ہی روز میرے پاؤں میں طاقت بحال ہونا شروع ہوگئی اور وہ جان لیوا درد بالکل غائب ہوگیا۔ تیسرے دن الحمدللہ میں واکر (Walker) کی مدد سے چلنے لگا۔ اب آہستہ آہستہ ٹانگوں میں قوّت بحال ہوتی جارہی ہے اور میں چھڑی کی مدد سے کچھ فاصلہ طے کرنے لگا ہوں۔
آپریشن کے بعد جس طرح پوری قوم نے دُعاؤں اور نیک خواہشات سے نوازا اس کے لئے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ ہزاروں کارڈ، دعاؤں کے پیغامات، گلدستے میری صحتیابی میں بے حد مدد گار ثابت ہوئے۔ وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی ، وزیر داخلہ جناب رحمٰن ملک، جناب میاں محمد نواز شریف، جناب میاں محمد شہباز شریف، سینیٹر جناب پرویز رشید، جناب فصیح اقبال نے گلدستے بھیجے اور نیک دعاؤں کا اظہار کیا۔ میں سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ، جناب لیاقت بلوچ، چوہدری خورشید زمان، سینیٹر عبدالحسیب خان، پروفیسر ڈاکٹر مسعود حمید خان، برگیڈیر عجائب، چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید صاحب، وفاقی وزیر غوث بخش مہر اور سابق گورنر بلوچستان نصیر مینگل، سہیل احمد عزیزی بذات خود تشریف لائے اور خیریت دریافت کی۔ ان سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ ہسپتال میں نرسنگ اسٹاف کی نزہت رحمن، اَقصٰی ظفر، جانشین، زرّین گل، زیتون، شمسہ، سمائلہ اور دوسرے ساتھیوں کی نہایت اعلیٰ نگہداشت کیلئے شکر گزار ہوں۔ یہ کے آر ایل کے پیارے ساتھی ہیں۔ اس بیماری، آپریشن اور بعد میں بیگم، بیٹیاں دینا اور عائشہ اور نواسیوں کی تیمارداری، محبت اور موجودگی نے اس تمام مرحلہ کو بخوبی برداشت کرنے کا حوصلہ دیدیا۔
دیکھئے میں اپنے قارئین کو صرف یہ بتلانا چاہ رہا ہوں کہ (Prolapsed Disc) یا اس کے نتیجہ میں سیاٹیکا (Sciatica) درد اگرچہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر ہمیں اس سے خوفزدہ یا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ شروع میں ڈاکٹر اس کے لئے دوائیں، درد دور کرنے والے انجکشن (کارٹیزون یا اسٹیرائڈ)، فزیوتھراپی، ”گرم، ٹھنڈے شاکس“ وغیرہ علاج تجویز کرتے ہیں۔ حکمت میں اور ہومیوپیتھی میں اس مرض کے لئے دوائیں موجود ہیں۔ اگر تھوڑے عرصہ میں ان سے فائدہ ہو جائے تو انسان خوش قسمت ہے لیکن اگر یہ تکلیف جلد دور نہیں ہوتی اور انسان تقریباً معذور ہوجاتا ہے تو پھر سرجری کے ذریعہ اس تکلیف سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ بستر پر لیٹ کر وقت گزاری سے منع کیا جاتا ہے اور ہدایت کی جاتی ہے کہ انسان چلنا پھرنا جاری رکھے مگر جب یہ ناممکن ہوجائے تو بلا خوف و خطر سرجری کا سوچے، مریض کو خود اس کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ ترقی یافتہ غیر ممالک میں بھی لوگ کمر کے آپریشن سے بہت ڈرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی اعلیٰ ماہر نیوروسرجن موجود ہیں اور میں ان کو ہر حال میں غیر ملکی سرجنوں پر ترجیح دونگا۔ وہ تجربہ کار ہیں، اہل ایمان ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ بیماری کی شدّت اور پھیلاؤپر آپریشن کا طریقہ کار منحصر ہوتا ہے۔ اگر درد صرف ایک ڈسک کے رگ پر گرنے سے ہے تو عموماً ایک چھوٹا آپریشن یعنی مائیکو ڈی کمپریشن یا چھوٹی اَوپن سرجری کی جاتی ہے اور متاثرہ ڈسک یا گُریئے کے متاثرہ حصّہ کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔ اس کی کامیابی عموماً 95 فیصد تک ہوتی ہے۔ اگر بیماری زیادہ شدید ہے تو پھر کمر کے نچلے حصّہ یعنی Lumber کا آپریشن ضروری ہوجاتا ہے اس کو Lumber Laminectomy یا Open Decompression کہا جاتا ہے ۔ اس آپریشن میں گُرئے کی ہڈی کے ٹکڑے اور رگ کو دبانے والی گدی جو مہروں یا گریوں کے درمیان ہوتی ہے ان کو کاٹ کر دور کردیا جاتا ہے اور چند ہی گھنٹوں میں مریض کو آرام آجاتا ہے۔ میرے ساتھ اسی قسم کا آپریشن ہوا اور بفضل خدا اور اپنے ڈاکٹروں کی مہارت سے دوسرے دن ہی وہ ناقابل برداشت درد غائب ہوگیا اور میں آہستہ آہستہ چھڑی کے سہارے آرام سے چلنے پھرنے لگا ہوں۔ دیکھئے تکلیف اُٹھانے اور زندگی کو بوجھ بنانے کی ضرورت نہیں ہے اگر تکلیف ہے اور شدید ہے اور تمام دوائیں اور ورزش ناکام ہوچکی ہیں تو اللہ پر بھروسہ کرکے آپریشن کرالیجئے، اچھے تجربہ کار نیوروسرجن سے معائنہ کرائیں اور اگر وہ مشورہ دیں تو آپریشن کرالیں اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ضرور شفا دے گا اور تکلیف سے نجات دیدے گا۔اللہ تعالیٰ پر اور سرجن پر بھروسہ رکھیں۔
تازہ ترین