• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی نظر میں ہی مجھے وہ شخص پڑھا لکھا اور مہذب لگا، پھر ان سے کبھی مسجد میں اور کبھی سرراہے گپ شپ ہونے لگی۔ تعارف دونوں طرف سطحی تھا۔ نہ وہ مجھے اچھی طرح جانتے تھے اور نہ ہی میں ان کے بیک گرائونڈ سے واقف تھا۔ ایک روز ان سے چائے پہ تفصیلی ملاقات ہوئی تو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ صاحب پروفیسر آف میڈیسن ریٹائر ہوئے تھے اورپھر اس کے بعد ایک دو پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ انہیں یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ معدودے چند ان حضرات میں سے تھے جنہوں نے ایم بی بی ا یس کے بعد ایم آر سی پی اور پھر میڈیسن میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔ ہمارے ملک میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بہت کم پی ایچ ڈی کرتے ہیں کیونکہ تحقیق کے لئے قلب و جگر کا خون کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے مستقبل کے حوالے سے گفتگو چل نکلی تو انہوں نے ایک ہڈ بیتی سنائی جو میرے تجربے اور مشاہدے کے عین مطابق تھی۔ دراصل ہم دونوں تعلیم کی زبوں حالی، اعلیٰ تعلیم کی گرتی ہوئی کوالٹی، تحقیق کے قحط اور کتاب سے محبت کے حوالے سے تشویش میں بھی مبتلا تھے اور کچھ غمگین بھی کیونکہ موجودہ صدی میں قوموں اور ملکوں کا مستقبل براہ راست سائنس، ٹیکنالوجی اور ا علیٰ تعلیم سے وابستہ ہے۔ وطن عزیز میں جس تیز رفتاری سے ان شعبوں میں زوال آیا ہے اور جس طرح ا سکول ایجوکیشن سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک معیار اور کوالٹی کا بیڑا غرق ہوا ہے اس کے پیش نظر قوم کے تابناک مستقبل کی توقع رکھنا بے وقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ میں گزشتہ دنوں ایک امریکی تحقیقی ادارے کی رپورٹ پڑھ رہا تھا۔ اس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ تعلیم کے شعبے پر سرمایہ کاری کا منافع باقی تمام شعبوں پر سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ ہے۔ تعلیم کا فروغ اور اس کی کوالٹی کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے ایک طویل عرصے سے ہمارے ملک پر ایسے حضرات حکمران رہے ہیں جو بظاہر تعلیم یافتہ تھے لیکن وہ نہ تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے اور نہ تعلیم میں دلچسپی رکھتے تھے۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ مشرف کے چند سالہ دور حکومت کے علاوہ کسی بھی دور حکومت میں تعلیم کے لئے جی این پی کا دو فیصد سے زیادہ مختص نہیں کیا گیا۔ نتیجے کے طور پر ایک طرف جہالت میں اضافہ ہوتا رہا، کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر رہے اور دوسری طرف ا سکول کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم کی کوالٹی کا خون ہوتا رہا۔ ماشاء اللہ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے کیونکہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں تعلیم کی اہمیت کا شعور نہیں رکھتیں۔ کسی قوم اور ملک کا بیڑا غرق کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے جو ہمارے ہاں ہورہا ہے۔ میں ڈھائی سال یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا منتخب رکن رہا اور یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا منتخب نائب صدر رہا اور یونیسکو کی سفارش کے مطابق مسلسل حکومت پہ تعلیم کے لئے زیادہ فنڈز مختص کرنے کے لئے زور دیتا رہا لیکن میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ وفاق میں سیکرٹری تعلیم تھا تو تعلیمی پالیسی بنائی اور پھر اس کی تکمیل یعنی عملدرآمد کے لئے کوششیں کرتا رہا لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس صورتحال کی دلچسپ مثال یہ ہے کہ تعلیمی پالیسی پر عملدرآمد کے لئے ایک قومی بورڈ بنایا گیا تھا جس کے چیئرمین وزیر اعظم اور اراکین میں و زیر تعلیم کے علاوہ چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ شامل تھے۔ بلحاظ عہدہ میں اس بورڈ کا سیکرٹری تھا۔ میں نے کوئی درجن بار اس بورڈ کی میٹنگ کے لئے سمری بھجوائی جو کبھی واپس نہ آئی۔ نتیجے کے طور پر ڈھائی برسوں میں ایک بھی میٹنگ نہ ہوسکی۔ ایٹمی دھماکے نے نہ صرف بہت سی پابندیاں عائد کردیں بلکہ فارن ایکسچینج کی صورت بھی دگرگوں کردی۔ بیرون ملک اسکالر شپ پر بھیجے گئے سینکڑوں طلباء و طالبات کو وظائف کی ادائیگی ایک عذاب بن گیا۔ کہانی طویل ہے لیکن اس تجربے کا مرکزی نکتہ فقط اتنا سا ہے کہ ہمارے حکمران تعلیم کی اہمیت کا شعور نہیں رکھتے جس کے سبب پاکستان میں تعلیم اور تعلیم کا معیار دردناک حد تک زوال پذیر ہے۔
معذرت بات شروع ہوئی تھی ان ڈاکٹر صاحب سے لیکن میرے تجربے کا رونا طویل ہوگیا حالانکہ میں نے دیگ سے فقط چند دانے نکالے ہیں۔ میں نے ان ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ اتنی ڈگریوں، تحقیقی مقالات اور وسیع تجربے کے باوجود آپ گھر پہ کیوں تشریف فرما ہیں، کسی میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ کیوں نہیں ہوتے تاکہ طلبہ آپ کے علم و فضل سے مستفید ہوں۔ انہوں نے جوبات بتائی وہی میرا تجربہ ہے۔ کہنے لگے میں لاہور کی ایک مشہور پرائیویٹ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں پروفیسر تھا۔ امتحان ہوا اور میں نے نتیجہ مرتب کرکے فہرست اوپر بھجوادی۔ دوسرے دن یونیورسٹی کے مالک جو صدر بھی تھے، کا پیغام ملا کہ جن طلبہ کو آپ نے فیل کیا ہے ان میں سے چند نہایت نالائقوں کو چھوڑ کر دوسروں کو مزید نمبر دے کر پاس کردیں۔ ہم نے یونیورسٹی بھی چلانی ہے۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ نالائق ڈاکٹروں کو ڈگری دینے کا مطلب ہے کہ قوم مرنے کے لئے تیار ہوجائے، یہ کام میں نہیں کرسکتا، میرا استعفیٰ قبول فرمائیں۔
دراصل یہ کتاب کا موضوع ہے اسے کالم کے مختصر دامن میں سمونا ممکن نہیں۔ میں دو پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا وائس چانسلر رہا اور تعلیم یوں بھی میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ ریسرچ کے ساتھ سرکاری یونیورسٹیوں سے بھی تعلق قائم ہے۔ میں اپنے تجربے کی بنا پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ چند ایک پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے علاوہ باقی تمام پیسے بنانے کی ٹیکسالیں اور راتوں رات ارب پتی بننے کی فیکٹریاں ہیں۔ تعلیمی معیار اور تحقیق تجارتی تقاضوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور مالکان چند برسوں میں اتنے رئیس ہوگئے ہیں کہ ٹی وی چینل اور اخبارات جیسے گھاٹے کے کام کررہے ہیں تاکہ اثر و رسوخ کمائیں، جس طرح تعلیم کی کوالٹی کا تحقیق یعنی ریسرچ سے گہرا تعلق ہے اسی طرح آسان دولت کا اثر و رسوخ کمانےNuisanceویلیو Valueبنانے سے قدرتی تعلق ہے۔ میڈیکل کے نام پر طلبہ سے لاکھوں میں فیسیں لی جاتی ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹیوں کے باقی شعبوں مثلاً سوشل سائنسز وغیرہ میں آسان ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں۔ ریسرچ جرنلز پر مافیاز قابض ہیں جہاں ریسرچ آرٹیکل چھپوانے کے لئے ادارتی بورڈ کے اراکین کو مصنف کے ساتھ شامل کرنا پڑتا ہے ورنہ آرٹیکل نہیں چھپتا۔ ایم فل کے تحقیقی مقالے نقل بازی کے شاہکار ہوتے ہیں اور عام طور پر ممتحن حضرات (Examiners)سے مل ملا کر طلبہ کو پاس کردیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اِلا ماشاء اللہ تعلیم کے معیار کا ستیاناس ہوچکا ہے اور ہماری ڈگریاں نہایت ناقابل اعتماد ہوچکی ہیں۔ اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا یا اس کا رخ موڑنا ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بس کا روگ نہیں جو اپنے تئیں کوشش کرتا ہے لیکن کامیابی کے امکانات محدود ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن مختصر بات فقط اتنی سی ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کے معیار، سائنس ٹیکنالوجی اور میڈیکل کے شعبوں میں افسوسناک حد تک زوال آچکا ہے اور زوال کا یہ سلسلہ جاری ہے جو قوم تعلیمی زوال اور پسماندگی کا شکار ہو وہ سی پیک بنالے یا سڑکوں کا جال بچھا لے اس کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے نہ عالمی سطح پر وقار حاصل کرسکتی ہے۔

تازہ ترین