• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں پہلے دمشق میں قحط پڑا، تو سعدی شیرازیؔ نے اس کی شدت بیان کرتے ہوئے ایک لازوال شعر لکھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ عشق کرنا بھول گئے تھے۔ ان دنوں قومی سانحات کی یلغار اِس قدر شدید ہے کہ میں اپنے گزشتہ کالم میں منو بھائی کی یاد تازہ کرنا بھول گیا۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت اور بہادر انسان تھے جو لگی لپٹی بغیر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک دیتے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے گہرے غور و فکر اور تاثیر میں ڈوبی ہوئی تحریر لکھنے کی بے مثال صلاحیت عطا کی تھی۔ وہ زندگی اور غریبوں کے احساسات کے بہت قریب اور اُن کی حالت بہتر بنانے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اُن کے ڈرامے جناب اشفاق احمد خاں اور جناب امجد اسلام امجد کی طرح پی ٹی وی پر بہت شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ میرا اُن سے پہلا تعارف راولپنڈی میں 1964ء میں جناب احمد ظفر کے ذریعے ہوا جو اُن دنوں اُردو ڈائجسٹ میں کام کرتے اور جناب قتیل شفائی کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے۔ لاہور آنے کے بعد اُن سے مختلف مواقع پر ملاقاتیں ہوئیں اور ہر بار اُن کی عظیم شخصیت کا تاثر گہرا ہوا۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود باہمی احترام کا رشتہ قائم رہا۔ اب جب عظیم آدمیوں کے قحط میں اضافہ ہو رہا ہے، تو منو بھائی کا خیال آتے ہی چشم پُرنم ہو جاتی ہے اور اُن کی مغفرت کی دعا بے اختیار دِل سے نکلتی ہے۔
منو بھائی کے دل میں انسانی ہمدری کے جو بے پایاں احساسات پائے جاتے تھے، وہ آج کل فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دل و دماغ میں ایک نئے انداز سے موجزن ہیں۔ زینب شہید کے والد نے جب چیف جسٹس کو اپنی بپتا سنائی، تو اُن کی آنکھ بھیگ گئی اور اُنہوں نے فرطِ غم سے تاریخی جملے ادا کیے کہ میں ادارے کے سربراہ اور قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے تم سے بہت شرمندہ ہوں کہ زینب ہماری بیٹی تھی اور ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے۔ اپنا ٹیلی فون نمبر دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تم کسی وقت بھی مجھے فون کر سکتے ہو۔ اسی کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ اُنہیں پریس کانفرنس کرنے یا بیان دینے سے گریز کرنا چاہیے کہ اُن سے بعض اوقات معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تین عجیب وغریب کردار سامنے آئے ہیں جو پوری قوم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے لیے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے اور گہرے سوچ بچار کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک عمران علی کا کردار ہے جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ آٹھ بچیوں سے زیادتی کرنے کے بعد اُنہیں قتل کر چکا ہے۔ وہ زینب کے محلے ہی کا رہنے والا اور نعت کی محفلیں سجانے والا بظاہر ایک مذہبی آدمی تھا۔ قصور کی پولیس اور انتظامیہ سات گھناؤنی وارداتوں کا سراغ لگانے میں بری طرح ناکام رہی۔ وہ اس وقت بھی حرکت میں نہیں آئی جب 2015ء میں دو سو سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی، حسین خان والے میں ویڈیو فلمیں بنانے اور اُنہیں بیرونی دنیا میں اسمگل کرنے کی خبریں سامنے آئیں۔ سیاسی اور انتظامی سطح پر اس بدترین سنگ دلی اور بے حسی نے پاکستان کا امیج متاثر کیا۔ اس ضلع سے پانچ قومی اسمبلی اور دس صوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں اور پولیس کا بھاری بھر کم اسٹرکچر قائم ہے، لیکن خون منجمد کرنے والے جرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔ زینب کے دل دہلا دینے والے واقعے کا میڈیا پر آنے کے بعد پورے ملک میں کھلبلی مچ گئی اور بچوں کے عدم تحفظ کا خوف ہر گھر کے اندر انتہائی کرب کے ساتھ محسوس کیا جانے لگا۔ ابھی اس کردار کی چھان بین جاری تھی کہ اچانک ایک طاقت ور کردار اُفق پر نمودار ہوا اَور عدالت ِعظمیٰ کو ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر گیا۔ یہ ڈاکٹر شاہد مسعود ہیں جو ایک ٹی وی چینل میں تجزیاتی پروگرام کرتے ہیں۔
ماضی میں اُن کے تجزیئے اور سیاسی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوتی رہیں۔ دراصل اُن کا تعلق میڈیسن ڈاکٹری سے ہے اور اُنہوں نے ایک زمانے میں انگلستان میں سیاسی پناہ لی تھی کہ ان کا تعلق کراچی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تھا۔ وہ کئی سال لندن اور بعد ازاں دبئی سے ٹی وی پروگرام کرتے رہے۔ ان کی گفتگو میں بلا کی کشش ہے۔ وہ تجزیئے کا تانا بانا کچھ اِس طرح بُنتے ہیں کہ آنے والے واقعات آپ پر سایہ فگن محسوس ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے مبینہ ملزم عمران علی کے بارے میں پروگرام کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک وفاقی وزیر اور بہت بڑی سیاسی شخصیت کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ پورنو گرافی انڈسٹری سے منسلک ہے۔ اس کے بینکوں میں 37اکاؤنٹس ہیں جن میں کثرت سے ڈالر جمع ہیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ فاضل چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے پر زور دیتے رہے۔ اُن کے غیر ذمہ دارانہ انکشافات نے صحافتی برادری میں ایک ہیجان پیدا کر دیا، چنانچہ عدالت ِ عظمیٰ نے ازخود نوٹس لے لیا اور چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے علاوہ سینئر ایڈیٹر حضرات، صحافتی اور مالکان کی تنظیموں کے عہدے داران بھی طلب کر لیے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے انکشافات کے حق میں ثبوت پیش نہیں کر سکے، تاہم اِس امر پر اصرار کرتے رہے کہ ان کی اسٹوری سچ پر مبنی ہے۔ اُنہوں نے اپنی صحافتی طاقت کے بڑے جوہر دکھائے اور فاضل چیف جسٹس سے پوچھا کہ آپ کیوں اسپتالوں میں جاتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے، تو سخت سزا کے مستحق ٹھہرو گے۔ اس پر خودسر اینکر نے کہا کہ میں بھی راؤ انوار کی طرح کسی پرائیویٹ طیارے سے ملک سے فرار ہو جاؤں گا۔
دورانِ سماعت فاضل چیف جسٹس نے سینئر صحافیوں سے اُن کی رائے معلوم کی۔ بیشتر حضرات نے واضح الفاظ میں کہا کہ صحافت صداقت پر مبنی خبریں عوام تک پہنچانے اور انہیں باشعور بنانے کا نام ہے۔ ایک صحافی حق کی شہادت دیتا اور سچائی تک پہنچنے میں بڑے بڑے خطرات مول لیتا اور بڑی ذمہ داری کا ثبوت دیتا ہے۔ سینئر صحافیوں نے ڈاکٹر صاحب کو عدالت سے معافی مانگنے کا مشورہ دیا، مگر وہ اپنی بات پر اڑے اور افسانے سناتے رہے۔ اس مکالمے نے صحافیوں اور عدلیہ کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے اور بڑے بڑے سوالات اُٹھا دیئے ہیں۔
تیسرا کردار راؤ انوار کا ہے جو ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں سات سو سے زائد جعلی پولیس مقابلے کرا چکا ہے۔ نقیب اللہ محسود کے جعلی مقابلے نے اس کی ’مہارت‘ کا پردہ چاک کر دیا اور اس کی خوں آشامیوں کے خلاف ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ آئی جی اے ڈی خواجہ نے اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور اسے حراست میں لینے کے احکام جاری کیے۔ وہ اب روپوش ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے اس کی گرفتاری کے لیے جو ڈیڈ لائن دی تھی، وہ ختم ہو چکی ہے۔ اس سے عدالت ِ عظمیٰ کا وقار متاثر ہو سکتا ہے، اس لیے اسے اپنے دائرۂ کار کو وسعت دینے میں احتیاط سے کام لینا اور مختلف طاقتوں کے پالے ہوئے عجیب و غریب کرداروں سے بڑے تحمل اور کامل توازن کے ساتھ نمٹنا ہو گا۔ اس کے علاوہ عدلیہ کو ایگزیکٹو کے اختیارات استعمال کرنے سے بڑی قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔

تازہ ترین