• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قاسمی صاحب کے بارے بندہ لکھے تو کیا لکھے، لکھنے والے کی نہ عمر، نہ تجربہ، نہ مطالعہ، نہ ہی فہم زیادہ۔ دوسری جانب عطاء صاحب کی محبتوں اور چاہتوں کا مقروض، بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن کیسے لکھوں اور کیا لکھوں، یہ خوف دل میں لئے بیٹھا ہوا ہوں، جنوری کی آخری لمبی سرد ترین رات کے جلد ختم ہونے کا اندیشہ بھی ہے کہ کسی طرح رات ختم ہونے سے پہلے کالم لکھنے میں کامیاب ہو جائوں۔ کمرے کی کھڑکیوں سے ٹکراتی سرد عاشقانہ ہوائیں مجھے استاد کو سبق سنانے پر اکسا رہی ہیں۔ لیکن میرا بھی وہ حال نہ ہو کہ جس طرح حکایات رومی میں مولانا روم لکھتے ہیں کہ ایک چور باغ میں گھسا اور درخت پر چڑھ کر ’’آم‘‘ کھانے شروع کر دئیے مالک نے دیکھا اور کہا اوئے بے شرم کیا کر رہے ہو، چور مسکرایا اور بولا باغ اللہ کا ہے اللہ مجھے کھلا رہا ہے اور میں کھا رہا ہوں، مولانا روم لکھتے ہیں مالک بولا نیچے آئیں تاکہ مومنانہ صفت کے حامل چور کی دست بوسی کر سکوں اور جہالت کے دور میں توحید و معرفت کا نکتہ سمجھ سکوں، میرے جیسے چور نے تعریف سنی اور جھٹ سے نیچے اتر آیا، باغبان نے پکڑا اور رسی سے باندھ کر خوب مرمت کی، جب باغبان نے ڈنڈا پکڑا تو چور چیخیں نکالتے بولا میرا قصور کیا ہے‘‘ مالک نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کا آم کھانا اللہ کی مرضی کے عین مطابق تھا تو میرا آپ کو مارنا بھی اللہ کے حکم سے ہے۔ چور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا کہ خدارا مجھے معاف کر دیں اور ساتھ بولا کہ اصل مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے کہ بندے کا بھی کچھ اختیار ہے۔ مالک نے کہا کہ اچھے یا برے عمل کا ذمہ دار بندہ ہی ہوتا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا ’’دنیا کمانا ہنر نہیں دلوں کو اپنا بنانا ہنر ہے‘‘ قاسمی صاحب کالموں میں دھمکیوں پر نہیں بلکہ مزاح نگاری پر یقین رکھنے، خودداری اور انسانی بیداری کے ہنر جاننے، قلم سے جنون کی حد تک پیار، پرانے شناساؤں کو کبھی فراموش نہ کرنے اور دوستوں سے جزوی نہیں کلّی اتفاق کرنے والے۔ کالم نگاری میں انسان سازی کررہے ہیں نہ کہ ابہام سازی، یاروں کی دل شکنی کے نہیں بلکہ دلجوئی کے قائل، شاعری، ادب اور نثر میں خون خرابے کے نہیں بلکہ خون جگر کے قائل، قاسمی صاحب وہ سدا بہار کالم نگار ہیں جن کو کسی دور میں بھی خزاں کا سامنا نہیں کرنا پڑا، وہ سماجی درویش ہیں جو مخالفین کو تختہ مشق نہیں بلکہ تختِ بادشاہت پر بیٹھانے کے قائل ہیں، وہ اپنے نظریے پر قائم لیکن اپنے نظریے کے محاسبے کے بھی قائل ہیں۔ صف واحد میں بھی صف اول کے کالم نگار، باکمال ولاجواب شاعر ہیں، بے مثل وبے مثال مزاح نگار۔ یہ جہاں ہوں وہ محفل کشتِ زعفران نہ بنے یہ ممکن نہیں، شگفتہ جملے بازی کوئی قاسمی صاحب سے سیکھے۔ جب چاہیں دل کی تاروں کو چھیڑ کر محفل کو گرما دیں۔ حسین نظاروں کو لوگ دیکھ کر ماشاء اللہ کہتے ہیں اور قاسمی صاحب ان شاء اللہ کہتے ہیں کہ کبھی ہم بھی ان اہم مقامات کی سیر کریں گے۔ جب یہ مزاح نگاری کے انداز میں مسکراہٹیں بکھیرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اصل میں دل سے خون کے آنسوئوں سے رو رہے ہوتے ہیں۔ اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو نڈر اور بے باک صحافی جناب حامد میر صاحب سے پوچھ لیں، 2012میں میری کتاب ’’حامد میر کہانی‘‘ کی تقریب رونمائی کے سلسلہ میں قاسمی صاحب کے دفتر الحمراء پہنچے، آگے دیکھتے ہیں کہ انگلیوں میں کئی سگریٹ لئے قاسمی صاحب کالم لکھ رہے ہیں اور کمرہ سگریٹوں کے دھویں سے بھرا ہوا۔ حامد میر صاحب نے مجھے کہا کہ ’’اف‘‘ یار ’’توبہ‘‘ میں نے قاسمی صاحب کو پہلی بار اس انداز میں دیکھا ہے۔ ہمیشہ چہکتے چمکتے دھمکتے اور مہکتے چہرے سے مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے ملتے ہیں اور باآواز کہتے ہیں ’’ہور سناں یار کی حال اے‘‘۔ ان کی تحریروں میں کسی کو عدل نظر نہ بھی آئے تو صداقت وشجاعت ضرور نظر آتی ہے کیونکہ یہاں لوگ سینوں میں کچھ رکھتے ہیں اور لکھتے کچھ ہیں۔ تاکہ کوئی ادارہ یا جماعت ناراض نہ ہو جائے اور کہانیوں کی فائلیں نہ کھل جائیں میں سمجھتا ہوں کہ قاسمی صاحب کی ایک ہی فائل ’’عوام‘‘ ہے اور عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ’’پتر‘‘ کیا ہورہا ہے اور آپ روز سڑکوں پر احتجاج کرنے پہنچ جاتے ہیں۔
پی ٹی وی سے لاکھوں روپے تنخواہ پر ٹانگ مار کر استعفیٰ دینا کوئی ان سے سیکھے۔ یہاں لوگ عہدے کی آخری رات تک عہدہ نہیں چھوڑتے بلکہ ایسے عہدوں پر بیٹھ کر کہتے ہیں۔ میرے پاس اعزازی عہدہ ہے کوئی تنخواہ نہیں لے رہا حالانکہ یہ لوگ مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ جو لوگ ن لیگی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ان کو وہ کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کو مضبوط بنانے کے آخری کھیل میں پیش پیش رہ کر جمہوریت کا مقدمہ لڑ رہا ہوں، ایسے میں عطاء صاحب عطائی ادیبوں کو اچھے نہیں لگتے۔ ملکی امور پر کھل کر لکھنا اس وقت بہت مشکل ہے اور قاسمی صاحب اس مشکل کو بڑی مشکل سے نہ صرف نبھا رہیں ہے بلکہ اپنی صفوں میں باخیر و عافیت اضافہ بھی کرتے جارہے ہیں اور یوں جمہوریت کا قافلہ مزید توانائی سمیٹے سینیٹ کے الیکشن کی طرف گامزن ہے۔
وہ عالمی ادیبوں ٹی ایس ایلیٹ اور مارک ٹوئن پسند کرتے ہیں اور اکثر مارک ٹوئن کا جملہ قہقہے سے سناتے ہیں وہ کہتا ہے ’’میں اتنا غریب تھا کہ کتا تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تھا، جب چور گھر میں آنے کا شک گزرتا تھا تو پورا خاندان کتوں کی طرح آوازیں نکالنا شروع ہو جاتا تھا۔ ان کے صاحبزادے یاسر پیرزادہ اور علی قاسمی لکھاری کیوں نہ ہوں جب ان کے والد کی تین پھوپھیاں کشمیری زبان کی مایہ ناز شاعرہ گزری ہوں۔ یاسر بھائی تو یاروں کے یار ہیں۔ میری ایک معصوم خواہش ہے کہ قاسمی صاحب اپنے تینوں صاحبزادوں کو مالی جانشین، اپنے مرید صادق، میرے عزیز بھائی اور معروف شاعر عزیر احمد کو ادبی گدی نشین اور اگر ہوسکے تو مجھے روحانی طور پر اپنا سجادہ نشین مقرر کرنے کا اعلان کریں تاکہ ان کے بعد تمام امور سلطنت بخیر انجام پاتے رہیں۔ یہ وہ بزرگ ہیں 74برس مکمل کرنے کے باوجود سترے بہترے نہیں ہوئے، بلکہ پچھترے میں جانے کے بعد بھی 150سال سے زائد عمر دبنگ انداز میں گزارنے کے خواہش مند ہیں اور اسی بادشاہی کی اسیری میں نثری، نظمی، تخلیقی اور مزاہی زندگی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس جمہوری تسلسل میں ان کا اہم رول ہے۔ تشدد سے پاک مسلم آئیڈیالوجی پر نہ صرف یقین رکھنے والے بلکہ کالموں میں صوفیانہ مزاج کی باتیں کرنے والے، مخالفوں کے بارے کہتے ہیں ’’یار انہاں وی تے کوئی کم کرنا ہے نا‘‘ انہوں نے ایک عالم کی اولاد ہونے کے باوجود ہ کالم کی مزدوری کو ترجیح دی، لوگ ان کو ترقی پسند کہتے ہیں، میں انہیں ترقی پسند صوفی کہتا ہوں، میرے دل میں قاسمی صاحب کی بے حد محبت اور لامحدود احترام ہونے کی ایک وجہ ان کا یہ نعتیہ شعر بھی ہے
تو نے کچھ بھی تو دیکھنے نہ دیا
اے مری چشم تر مدینے میں
مجھے کافی دنوں سے ان کے ڈراموں خواجہ اینڈ سنز اور شیدا ٹلی کی یاد ستا رہی ہے کاش! انہی دنوں میں دوبارہ یہ ڈرامے شروع ہوں۔ ان کی سالگرہ کی تقریب گزشتہ روز لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں منعقد کی گئی، ہر دکھ درد کی دعا درود مصطفیﷺ آج جمعہ80بار پڑھ کر ایصال ثواب جناب سہیل وڑائچ صاحب کے چچا چوہدری ارشد محمود وڑائچ اور دیگر مرحومین کو کردیں۔

تازہ ترین