• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوادر فری زون کے افتتاح سے خطے میں بھارتی بالادستی کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے۔ پاک چین تعلقات اقتصادی شراکت داری میں بدل چکے ہیں۔ فری زون کی تعمیر سے گوادر جنوبی ایشیا میں تجارتی مرکز بن جائے گا۔ پاکستان کی معیشت کو بھی اس سے استحکام ملے گا۔ 474ملین ڈالر سے گوادر فری زون میں سرمایہ کاری شروع ہوئی ہے جو790ملین ڈالرسالانہ تک بڑھ جائے گی۔60ایکڑ پر مشتمل اس فری زون کو چائنہ اوورسیز پورٹ ہولڈنگ چلائے گی۔ اس عظیم منصوبے سے بلوچستان سمیت پاکستان میں ترقی وخوشحالی آئے گی اور علاقے سے غربت دور ہوگی۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ چاہے آئندہ کوئی بھی حکومت ہوسی پیک منصوبے جاری رہیں گے۔گوادر اقتصادی فری زون کی ایکسپو2018کی تقریب میں سعودی عرب، عمان، افغانستان، ایران، چین اور پاکستان کی 93سے زائد کمپنیوں نے شرکت کی۔ایکسپو2018اوردوروزہ نمائش کا مقصد پاکستان، چین اور خطے کے دیگر ممالک کے تاجروں اور سرمایہ کاروںکوایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔اس لحاظ سے یہ ایک کامیاب کانفرنس تھی۔گوادرپورٹ،فری زون، ایسٹ وے،ایکسپریس وے اور دیگر منصوبے آج ایک حقیقت کاروپ دھار چکے ہیں۔ان میگا پروجیکٹس میں جنوبی ایشیاکے ممالک خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔سی پیک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے پاکستان اور افغانستان پر امریکی ڈرون حملوں کاخاتمہ وقت کاناگزیر تقاضا ہے۔ ہنگو میں افغان مہاجرین کے کیمپ پرحالیہ امریکی ڈرون حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ 2001سے ابتک پاکستان میں400سے زائد ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہ افراد،معصوم بچے اور خواتین لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی پر بڑاسوالیہ نشان ہیں۔حکومت پاکستان کو اس حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں65ہزار سے زائد شہریوں،5ہزارفوجی جوانوں اور110ارب روپے کامعاشی نقصان برداشت کیا ہے اتنی بڑی قربانی امریکہ سمیت کسی اور ملک نے نہیں دی۔امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج مسلسل سولہ سال تک جدیدترین ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی قابل ذکرفتح حاصل نہیں کرسکی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتی ہے۔ امریکہ کا بار بار ڈومور کامطالبہ پاکستان کے کردار کو شک کی نظر سے دیکھنے کے مترادف ہے۔ امریکہ ایک جانب پاکستان اور چین کے خلاف بھارت کی سرپرستی کررہا ہے تودوسری جانب وہ سی آئی اے اور را کے ذریعے جنوبی ایشیا کے حالات کو خراب کررہا ہے۔ جب سے سی پیک کا آغاز ہوا ہے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہندوستان نے ظلم وستم کا بازار گرم کردیا ہے۔ بھارتی آبی جارحیت سے بھی پاکستان کوکئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک کے معروف اور سینئر صحافی ضیاء شاہد نے بھارتی آبی جارحیت کے متعلق اپنی نئی کتاب ستلج ،راوی اور بیاس کاپانی بند کیوں؟ میں بھی انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہا ہے اور پاکستان کو مشرقی دریائوں سے گھریلو استعمال، آبی جارحیت اور ماحولیات کے لئے طے شدہ پانی نہیں دے رہا جس کی وجہ سے ستلج، راوی اور بیاس خشک ہوچکے ہیں۔ اس کتاب میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 1960میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ بھارت صرف ہمارے مشرقی دریائوں کازرعی پانی روکنے کا مجاز ہے مگر وہ اس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کررہا ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے ایک ہوٹل میں بھارتی آبی جارحیت کے حوالے سے ضیاء شاہد کی کتاب کی تقریب رونمائی میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں سندھ طاس واٹر کمیشن کے سابق کمشنر مرزاآصف بیگ، مجیب الرحمان شامی، محمد علی درانی، حافظ شفیق الرحمان، علامہ عبدالستار عاصم، انجینئر سلمان خان، سعد اکبر خان، شاہد رشید، رانا محبوب اختر اور خدایا چنڑ سمیت کئی ماہرین اور اہم قلم کاروں نے شرکت کی۔ میں نے تقریب سے اظہارخیال کرتے ہوئے عرض کیا کہ حکومت پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ ہمارے مشرقی دریا سوکھ چکے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہندوستان کو ہمیں گھریلو استعمال، آبی حیات اور ماحولیات کے لئے درکارپانی دینا چاہئے۔ اگر اس معاملے میں ہندوستان روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے تو پاکستانی حکومت کو بلاتاخیر عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔
سی پیک کوبھی ناکام بنانے کے لئے امریکہ اور بھارت متحد ہوچکے ہیں۔ چین میں بھارت کے سفیر گوتم بمباوالانے ایک بار پھر سی پیک پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستان کا مطالبہ ہے کہ چین ادویات اور آئی ٹی کے سافٹ ویئر اس سے خریدے مگر چین بھارت کی اشیاء نہیں خرید رہا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ چونکہ چین دنیا میں ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے اس لئے بھارت نے امریکہ کے ساتھ مل کراس کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ شروع کیا ہوا ہے۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے بھی امریکہ کے لئے چین کوروس سے بڑاخطرہ قراردیا ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ چین یورپ اور امریکہ میں دراندازی میں ملوث ہے اور چینی انٹیلی جنس کاان ملکوں میں بڑا اثر ہے۔ سی آئی اے چیف مائک پومیمپو کا کہنا ہے کہ چین امریکی معیشت پر اثرورسوخ حاصل کرنا چاہتاہے۔ہندوستان بھی امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں چین کے لئے مشکلات کھڑی کررہا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت نے نہتے اور بے گناہ کشمیریوں پر ریاستی دہشت گردی کی انتہا کردی ہے۔ 5فروری کادن قریب آرہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 5فروری سے قبل ہی وادی کشمیر میں بھارتی مظالم میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اب ہندوستان نے جموں وکشمیر میں معصوم کسانوں پر بھی حملے شروع کردیئے ہیں۔ چند روزقبل مقبوضہ کشمیر کے علاقے شوپیاں میں بھارتی فوج نے کھیتوں میں بارودی سرنگ بچھا کر کسانوں کو نشانہ بنایا۔ المیہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی بھارت کے سنگین جرائم میں برابر کی شریک ہیں۔ اگرچہ انہوں نے کہاکہ ہندوستانی مظالم کی تحقیقات کااعلان کیا ہے مگریہ محض دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کے ذریعے کشمیریوں کے غم وغصے کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ ماضی میں بھی بھارت کے انسانیت سوز مظالم کی نہ کوئی تحقیقات ہوئی ہیں اور نہ ہی بدترین جرائم کے ذمہ دار بھارتی فوجی اہلکاروں کو کبھی سزاملی ہے۔ بھارت گزشتہ70برسو ں میں ایک لاکھ سے زائدبے گناہ کشمیری مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے۔ اتنی بڑی تعدادمیں شہادتوں اور ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنے کے باوجود ہندوستان کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو ختم نہیں کرسکا بلکہ مظفروانی کی شہادت کے بعدسے آزادی کی تحریک میںشدت آچکی ہے۔ مظفر وانی کو شہید کرنے کے بعد بھارت نے پیلٹ گنوں اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے سینکڑوں کشمیریوں کو شہید اور ہزاروں کو بینائی سے محروم کردیا ہے۔ افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ، انسانیت کے علمبردار ممالک اور نام نہاد این جی او زکشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے خاموش تماشائی کاکردار اداکررہی ہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو70برسوں سے دبارکھا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ جموں وکشمیر پر بھارتی تسلط ختم کرنے کے لئے فیصلہ کن جدوجہد کی جائے۔

تازہ ترین