• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلی بار چین میں نے1982میں دیکھا ۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ایک اعلیٰ سرکاری وفد کے ہمراہ کئی شہروں میں جانے کا موقع ملا۔ 1982کو اب کتنا زمانہ گزر گیا۔دنیا بدل گئی اور دنیا اتنی نہیں بدلی جتنا چین خود بدل گیا۔ مانی ہوئی بات ہے کہ تاریخ میں کسی بھی ملک نے اتنے کم عرصہ میں اتنی معاشی ترقی نہیں کی جتنی چین نے کی ہے۔ آج کے دور میں چین ایک طلسماتی داستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ دبئی کے بارے میں بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے لیکن دبئی کی کہانی بالکل مختلف ہے۔ ایک چھوٹا ساعلاقہ جو پردیسیوں سے آباد ہے۔ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے معاشی اور سماجی انقلاب کی حرارت سمندروں کے اس پار بھی محسوس کی جاتی ہے۔ لیکن1982میں ہمیں ایک نئے چین کی واضح نشانیاں دکھائی نہ دیں۔ ممکن ہے کہ ہمارے اس تاثر کا کچھ تعلق ہماری اپنی کم علمی سے بھی ہو ۔ بہرحال تمام شہریوں کو ہم نے ایک ہی جیسے لباس میں دیکھا کہ جو چیئرمین مائو کی پوشاک ہوا کرتا تھا ۔ کشادہ شاہراہوں پر کوئی کار گاہے گاہے ہی دکھائی دے جاتی تھی اور سائیکلوں کی جیسے ایک ندی بہتی رہتی تھی۔ہمارے وفد میں جو سینئر صحافی تھے اور جو بیشتر اشتراکی نظام کے مخالف تھے اس انداز کا تبصرہ بھی کرتے تھے کہ دیکھیں، یہ لوگ کتنے تھکے ہوئے اور ناخوش سے دکھائی دیتے ہیں۔ کتنے جوکھم میں جی رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے میں نے کہا تھا کہ یہی لوگ ہمیں امداد بھی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سفر میں دیکھنے اور سوچنے کے کئی مواقع تھے۔ میں نے آج کا چین بھی اچھی طرح دیکھا ہے اور چینی کے بارے میں گفتگو ہوتو موازنےکے لئے میں اپنے پہلے سفر کا ذکر بھی کرتا ہوں۔ لیکن اب میں آپ سے یہ اقرار کرتا ہوں کہ اس کاایک پہلو بلکہ ایک راز کئی سالوں بعد مجھ پر کھلا۔ یہی آج میرا موضوع ہے اور اس کا ایک حوالہ ہمارا اپنا ملک اور ہمارا موجودہ معاشرہ ہے۔
ہوا یہ کہ گزرے ہوئے سالوں میں جب کئی بار میں نے ایسی تقریبات میں شرکت کی کہ جن کا تعلق پاکستان کے بچوں کی تعلیم اور صحت سےتھا تو مجھے اپنے چین کے دورے کے وہ مناظر یاد آئے جو میرے حافظے میں ہمیشہ سے موجود توتھے لیکن جن کی معنویت کو میں ٹھیک سے سمجھ نہ پایا تھا ۔ میں نے کہا ناکہ1982میں چین کے عام شہری زیست کی تگ ودو میں سرگرداں دکھائی دیتے تھے۔ ہاں، لیکن میں نے ایسے خاندان بھی دیکھے تھے جن کے ہمراہ چھوٹے چھوٹے بچے تھے یاد کیا تو یاد آیا کہ ان بچوں کا لباس سب سے اچھا دکھائی دیتا تھا ۔ وہ بہت صحت مند تھے بہت خوش دکھائی دیتے تھے۔ کوئی غور کرتا تو جان لیتا کہ ارے، یہاں تو یہی بچے سب سے اہم دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں کتنی توجہ اور لاڈ سے پالا جارہا ہے۔ یادوں کے البم سے جب میں نے یہ تصویریں نکالیں تو پھر میں نےبار بار اسے ایک تمثیل بناکر اپنی گفتگو میں شامل کیا ۔ جو پیغام یہاں پنہاں ہے اس کی تشریح کی کوئی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ بس یہ سمجھ لیں کہ کسی بھی معاشرے کا مستقبل اس کے بچوں کے چہروں پر اور ان کی آنکھوںمیں دیکھا جاسکتا ہے۔ تو پھر یہ سوال تو خود اپنا سر اٹھائے گا کہ ہمارے اپنے بچوں کے چہروں پر جو مستقبل لکھا ہے وہ کیسا ہے۔ ایک نکتہ شاید کوئی یہ بھی اٹھائے کہ جوبچے اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں ان کا مستقبل تو مخدوش نہیں ہے۔ لیکن میری نظر میں وہ بچے ہیں جو اکثریت میں ہیں اور جو گلیوں اور محلوں میں رلتے پھرتے ہیں۔ اور پھر وہ بچے بھی ہیں جو حالیہ دنوں میں ہولناک خبروں کی سرخیاں بنتے رہے ہیں۔ کیا قصور کی معصوم زینب کا چہرہ آپ کی نظروںمیں گھوم نہیں گیا ؟ ویسے یہ میں آپ کو بتادوں کہ میں صرف ان بچوں کا ذکر نہیں کررہا جو جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں۔ ایسے جرائم دوسرے معاشروں میں بھی ہیں گو ہمارے ملک میں جو کچھ ہوا ہے اس کا ایک خصوصی تعلق ہمارے سماجی رشتوں، اخلاقی قدروں، معاشی حالات اور قانون کے نفاذ میںحارج بدعنوانیوں سے بھی ہے۔ جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو بچوں، عورتوںاور اقلیتوں کے غیر محفوظ بلکہ مظلوم ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔ ایسی بے شمار کہانیاں ہیں جو ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ بڑے شہروں کے ہر چوراہے پر ہمارا حال اور ہمارا مستقبل بھی ہمارا منہ چڑاتا نظر آتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم خود کواس جرم اور اس ظلم سے بری الذمہ سمجھتے ہیں کہ جو ہمارے اجتماعی وجود کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے۔
پاکستان کے بچے کس حال میں ہیں اور ان پر کیا گزر رہی ہے اس کا ذکر میں نے اس ہفتے کی کئی خبروں میں پڑھا ہے اور اسی لئے میں چند ایسے حقائق کاذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی خطرناکی کا بظاہر ہمارے حکمرانوں کو پورا احساس بھی نہیں ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے بچوں کی دنیا کا پوری طرح جائزہ لیں تو مستقبل سے اچھی امیدیں وابستہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ بچے تیزی سےبڑے ہوجاتے ہیں۔ اپنے بچوں کودیکھ کراکثر یہ خیال آتا ہے کہ ارے، یہ وقت کتنی تیزی سے گزر گیا۔ اب آپ یہ سوچئے کہ اگر چھوٹے بچوں کی تقریباً نصف تعداد کمزور جسم اور کمزور ذہن کے ساتھ پل رہی ہوتو اس کے نتائج کیا ہونگے۔ اس ہفتے بچوں کے ساتھ زیادتی کے اتنے بہت سے واقعات ہم نے میڈیا میں دیکھے اور پڑھے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خیبرپختونخوا کے ایک وزیر کے بھائی کی 11سالہ ملازمہ کی پر اسرارہلاکت کی خبروں کا ازخود نوٹس لیا اور اس طرح ہمیں ایسے دوسرے واقعات بھی یاد آگئے۔ چائلڈ لیبر کے خلاف ایک عالمی تحریک کافی عرصے سے جاری ہے لیکن پاکستان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔اسی طرح عالمی ادارے مسلسل ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ حاملہ خواتین اور گود کے بچوں کی صحت ناقص اور ناکافی خوراک کی وجہ سے خراب ہورہی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی نصف سے ذرا کم تعداد صرف کمزور جسم ہی نہیں بلکہ کمزور دماغ کے دائمی مرض میں مبتلا ہے۔ منگل کے روز سندھ کے وزیر اعلیٰ نے غذائیت کے ایک ایسے منصوبے کا افتتاح کیا کہ جس کا مقصد یہ ہے کہ 2021تک ایسے مفلوج بچوں کی تعداد40فی صد تک رہ جائے ۔
دیکھا آپ نے 40فی صد تک پہنچنا بھی جیسے ایک معرکہ ہو۔ ایک اور خبر بھی تھی کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح کے لحاظ سے پاکستان اپنے علاقے کے دوسرے مسلمان ملکوں یعنی ایران، بنگلہ دیش اور تاجکستان سے بہت پیچھے ہے۔ ورلڈ ہیلتھ پروگرام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی60فی صد آبادی اچھی اور پوری غذا سے محروم ہے۔ اب یہ کون ہمیں بتائے گا کہ اس کا مطلب کیا ہے جبکہ پاکستان اپنی ضرورت سے شاید زیادہ ہی اناج پیدا کرتا ہے۔ بس ہم یہ جانتے ہیں کہ بے شمار غریب بچوں کوپیٹ بھر کھانا نہیں ملتا۔ تو کیا کیا جائے ؟ ایک تبصرے میں میں نے ایک مفکر کا مقولہ پڑھا کہ جس کا ترجمہ میں کچھ اس طرح کروں گا کہ بچہ انتظار نہیں کرسکتا۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب اس کا جسم نمو پارہا ہے۔ اس کا خون بن رہا ہے اس کا شعور بیدار ہورہا ہے۔ اس کی ضرورت کو ہم کل پر نہیں ٹال سکتے اس کا تو نام ہی ، آج اور ابھی ہے۔

تازہ ترین