• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نجی ٹی وی کے اینکر پرسن نے قومی سطح پر ایک اجتماعی بحران پیدا کر دیا ہے۔ یہ اخلاقی، قانونی، صحافتی اور معاشرتی جہتوں کو سوالیہ دائروں میں لانے، مختلف نقطہ ہائے نظر اور اجتماعی رویوں کا باعث بن رہا ہے۔ مثلاً!
-Oیہ واقعہ پاکستانی میڈیا کا نائن الیون (9/11) ہے۔
-Oپاکستان کی تاریخ میں میڈیا کی سطح کا یہ پہلا وقوعہ ہے جس میں دہشت گردی، توہین عدالت اور تعزیرات پاکستان کے تحت سزائوں کا امکانی تذکرہ ہوا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کسی خبر کا از خود نوٹس لے کر ممکنہ حد تک فوری سماعت کا آغاز کر دیا۔
-Oالیکٹرانک میڈیا میں موجود اُن اینکر پرسنز کی ناپسندیدہ سرسراہٹ پاکستانیوں کے ذہنوں میں اضطرابی فصلیں کاشت کر رہی ہے جنہوں نے اپنے پروگرام میں ملک کے دفاعی، خارجہ، بین الاقوامی اقتصادی معاملات، آئین پاکستان جیسے قومی ایشوز پر اعتدال سے ہی تجاوز نہیں کیا بلکہ اپنے نفس پرستانہ طرز عمل سے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر ہر نوع کی مشکوک ایف آئی آرز کے اندراج یا پہلے سے درج شدہ ایسی ایف آئی آرز کی ایک طرح سے تصدیق کرتے اور تقویت دیتے رہے۔
-Oبطور نتیجہ، باضابطہ لہجے اور متعین ذہن کے ساتھ ایک رائے ریکارڈ پر لائی گئی یہ ان لفظوں پر مشتمل تھی۔
’’نہ یہ اینکر پرسن ہے نہ صحافی، جو یہ ہے وہ سامنے آ گیا‘‘۔
-Oاینکر پرسن نے سپریم کورٹ سے باہر آتے ہی بلند آہنگی سے مملو مشتعل لہجے میں کہا ’’کیا یہ ملک ان کے باپ کا ہے؟‘‘ پس منظر اس سے متعلق موجودہ سوالیہ صورتحال تھی، یقیناً یہ ملک کسی کے باپ کا نہیں، یہ قدرت کا عطیہ نایاب عطیہ اور پاکستانی عوام کا ہے لیکن یہ ملک میڈیا کے کسی گروپ، کسی صحافی اور کسی اینکر پرسن کے باپ کا بھی نہیں۔
-oقومی پریس ہی نہیں پاکستان کے مطالعاتی حلقوں نے عدالت عظمیٰ پاکستان کی خدمت میں زیر بحث اینکر پرسن کے معاملے پر یہ یاد دہانی کرائی ’’چونکہ خود انہوں نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کو آواز دی ہے تو بہتر ہے کہ فاضل عدالت یہ پتا بھی چلائے کہ انہوں نے آج تک ڈس انفارمیشن کی جو مہم چلائے رکھی اس کا مقصد و مدعا کیا تھا کیونکہ یہ کوئی پہلا انکشاف نہیں ہے جو بے بنیاد ثابت ہوا ہے، یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے، انہوں نے بڑے دعوے سے جو انکشاف کیا ہے اس سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس طرح کی مہمیں بہت منظم انداز میں چینلوں پر چل رہی ہیں جن میں حقائق کا قتل عام کیا جاتا ہے اور تان کسی نہ کسی انداز میں کسی ایسے اسیکنڈل پر توڑی جاتی ہے جس کا مقصد حکومتوں کو بدنام کرنا ہوتا ہے، زرداری حکومت میں یہ صاحب روزانہ پیش گوئی کر کے سوتے تھے کہ صبح جب وہ اٹھیں گے تو زرداری صدر نہیں ہوں گے لیکن ان کی حکومت نے اور خود انہوں نے پانچ سال پورے کئے، اب یہی رویہ موجودہ حکومت کے بارے میں اپنا لیا گیا ہے، آخر پتا تو چلنا چاہئے کہ ان کے پاس یہ مضامین کہاں سے آتے ہیں جنہیں وہ بڑے بڑے دعوے کر کے سمندر کی لہروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔
اینکر پرسن کے موجودہ ’’ہمالیاتی انکشاف‘‘ نے ’’جنگ گروپ‘‘ کے خلاف الیکٹرونک میڈیا کے ایک حصے کی مہم کا یاد دلا دیا، اسی حصے نے گروپ اورمالکان کے خلاف طویل عرصہ چلائی گئی مہم کے عنوانات اور پروگراموں کی تاریخ کی بھی یاد دلا دی، گروپ اور مالکان کے خلاف ’’فرعون، بھارت اور امریکہ کے ایجنٹ ہونے اور باہر سے فنڈز لینے تک کے الزام لگائے‘‘، آج وہ مہم اور وہ اینکر پرسن کہاں ہے جسے کسی قومی ٹی وی نیٹ ورک کی زمین اپنے اوپر پائوں دھرنے کی جگہ نہیں دے رہی۔ ایسا لگتا ہے اس پر الیکٹرانک میڈیا کی زمین تنگ ہو چکی ہے؟
-Oعدالت عظمیٰ نے اپنی معاونت کے لئے جن میڈیا پرسنز کو دعوت دی وہ تمام معزز حضرات وہاں تشریف لے گئے، سب کی گفتگو کا حاصل صحافی کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس کے فرائض کی نشاندہی لئے ہوا تھا، حامد میر نے اینکر پرسن کے حوالے سے عدالت عظمیٰ سے نرم رویہ اپنانے کا مودب اظہار کیا لیکن اینکر پرسن نے ملک کی سب سے بڑی دنیاوی عدالت کے سامنے کسی قسم کی غلطی کا اعتراف تو درکنار معذرت خواہانہ لہجے کی ہلکی سی جھلکی بھی نہیں دکھائی جبکہ اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا ’’معافی کا بھی یہی موقع ہے!‘‘
-Oاینکر پرسن کے اس وقوعہ نے الیکٹرانک میڈیا کے ان دس بارہ میں سے ان آٹھ نو افراد کے نام بالخصوص ذہن کی تختی پر ابھارے جن کے انداز کلام اور چال ڈھال سے انسان کو قدرت کی یہ وارننگ لازماً یاد آتی ہے جس کا مفہوم ہے:’’نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ آسمان پہ تھگلی لگا سکتے ہو، دھرتی پہ عاجزی سے چلا کرو!‘‘
-Oکیا پاکستان میں کہیں "DARK WEBINTERNET"(شیطانی قوتوں کا مرکز) یا "TOR"کے نام سے معرض وجود میں آ چکا ہے، ایک ایسی ویب سائٹ جس کا کسی بھی سرچ انجن کے ذریعہ پتا کرنا ناممکن ہے، اس ویب سائٹ سے آپ کو "Hidden world" میں پہنچا دیا جاتا ہے، کیا پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا میں ایسا کوئی مرکز کام کر رہا ہے جس کے مرکز میں یہاں کے کوئی منفی اذہان داخل ہو چکے یا داخل کر دیئے گئے ہوں؟
اور اب چند روز پہلے جڑانوالہ کے جلسہ عام میں مریم بی بی کے اٹھائے گئے سوالات کی صدائے باز گشت پر ایک گفتگو! انہوں نے عوام سے اپنے خطاب میں تاریخ پاکستان کے ’’دس ابواب یا دس امراض‘‘ کے حوالے سے اپنے احساسات کا اظہار کیا، یہ ایک طرفہ یا جانبدارانہ بھی ہو سکتے ہیں، اس سے قطع نظر جب وہ یہ کہیں، کیا آپ کو مشرف کا آئینی انحراف قبول ہے یا کیا آپ ایسا پاکستان چاہتے ہیں جس میں کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے یا جب وہ نا انصافیوں پر احتجاج کا حق نہ دینے والے پاکستان کو قبول کرنے یا نہ کرنے بارے استفسار کریں، اس وقت آپ بطور پاکستانی کے واقعات سے صرف نظر نہیں کر سکتے؟ ابھی پاکستان کی اندرونی سیاسی کہانی پوری شدتوں پر ہے، ہمیں شاید اپنی قیاس آرائیوں یا خدشات کے لئے سینیٹ کی نئی انتخابی تاریخ 3مارچ 2018تک انتظار کر لینا چاہئے۔

تازہ ترین