• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے عوام اور خود حکمران بھی ایک بار پھر بھڑکتے حالات حاضرہ کی روشنی میں صدر مملکت جناب ممنون حسین کے پانامہ لیکس پر تاریخی اور ایک ہی فقرے میں ہما گیر تبصرے کہ ’’یہ (لیکس) تو آسمانی نزول معلوم دیتا ہے‘‘ پر غور فرمائیں۔
اللہ تیری شان! قطعی غیر متنازعہ اور مکمل با اعتماد پانامہ لیکس کے اب تک کے نتائج اور ان کے خلاف اسٹیٹس کو کی ممکنہ مزاحمت، پھر اس کے خلاف بمطابق آئین و قانون Sustainable(حتمی نتائج تک جاری رہنے والا) احتسابی عمل جس کے رد عمل میں عشروں سے اسلامی جمہوریہ پر حملہ آور حکمران بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ (بمطابق آئین و قانون) ڈھنگ بدلتی عدلیہ کے خلاف ایک ایسی منظم محاذ آرائی کا آغاز کر کے اس میں شدت لا رہے ہیں، جس میں یہ خود ہی مزید قانون کی پکڑ میں آتے جا رہے ہیں۔ گویا آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔ جنہوں نے پاکستان کو اپنی اور آل اولاد کی شکارگاہ بنا ڈالا، وہ خود ہی آئینی شکنجے میں آتے جا رہے ہیں۔ نہ کوئی روایتی نجات دہندہ فوجی آمر حکمرانوں پر برے وقت کا فائدہ اٹھانے کو تیار نہ آئینی حکمرانی کو تلپٹ کرنے کی کوئی سازش، فوج نے تو اعلانیہ آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے تحفظ پر کار بند رہنے کا عزم باندھ لیا؟ جس کے کامل یقین کے لئے، وہ گاہے بگاہے اسے دہرا بھی رہی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ن لیگ کی بھی حکومت جاری و ساری ہے جو آئینی برتری کی زندہ علامت ہے۔
قارئین کرام! غور تو فرمائیں، کیسے ہمارے ’’برقع پوش‘‘ اقامہ یافتگان حکم پانامہ کیس کی تحقیق میں بے نقاب ہوئے کہ یہ بیرون ملک قائم کی گئی اپنی آل اولاد فرنٹ مین کی کمپنی کے ملازم بھی ہیں۔ یہ احتسابی عمل میں جتنی چھوٹی چالیں چلتے گئے اتنی ہی قانون کی جکڑ میں آتے گئے۔جیسا کہ عدلیہ کے خلاف بغاوت نما ابلاغ میں ، ان کا ہدف خود ان کی حکومت بھی ہے کہ کسی طرح یہ کسی غیر معمولی ہنگامہ آرائی میں کسی غیر آئینی اقدام سے ختم ہو جائے ۔ تو یہ مظلوم بننے کا اصل ہدف حاصل کریں، لیکن یہ نہیں ہو پا رہا،مظلوم بن رہے ہیں،نہ جمہوریت کا پیکر، الٹا آئین کو تلپٹ کرنے کی راہ پر چل پڑے ۔نا اہل وزیر اعظم اور صاحبزادی توایسے فیصلہ کر چکے ہیں کہ انہوں نے جاری آئینی عمل (عدالتی کارروائی) کے خلاف کھلم کھلاگویا بغاوت کی کہ حوالہ زندان ہونا ہے تاکہ ن لیگ حامی ووٹرز کے جذبات سے کھیل کر احتسابی عمل کے دونوں ملزمان باپ بیٹی مظلوم یا حریت پسندکہلائیں، لیکن وہ توہین عدالت کے جن الزامات کی زد میں آ چکے ہیں ، ان کی سیاسی اعتبار سے زیادہ سنگین سزا سپرد زنداں نہیں بلکہ عوامی نمائندگی کے لئے نا اہلی ہونا ہے جو جناب نواز شریف پہلے ہی ہو چکے، خدشہ ہے کہ محترمہ مریم نواز نے عدلیہ مخالف ابلاغ جس شدت سے جاری رکھا ہوا ہے، وہ بھی توہین عدالت کےشکنجے میں آ کر نا اہل نہ ہو جائیں۔ ایسے میں معروف تجزیوں کے مطابق ان کے وزیر اعظم بننے کے ارادےدم توڑ جائیں گے اور وہ آزاد رہ کر حریت پسند بھی نہ بن پائیں گی ۔ حیرت یہ ہے کہ تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں صاحب یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ وہ آئین و قانون پر حملہ آور ہو کر کونسا کھیل کھیل رہے ہیں۔ جبکہ ان پر الزامات کی فہرست حد درجہ حساس ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ ان کے ووٹرز اب بھی سب سے زیادہ ہیں، لیکن یہ سمجھنا کیا بہت مشکل ہے کہ ’’سماجی پسماندگی‘‘ بہرحال ملک کے آئین و عدالتی نظام سے لڑ بھڑ کر خود کوکسی صورت زیادہ طاقتور نہیں منوا سکتی ۔ اگر منوا سکتی تو پاکستان کی بقا خطرے میں نہ پڑ جائے گی ؟ اگر کسی مشیر یا مشیروں نے میاں صاحب کو اس گمراہی میں مبتلا کیا ہے، وہ اب تک کے ان کے دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن ہے اور اگر وہ خود اور صاحبزادی ہی تنہا اس راہ کے مسافر بنے ہیں اور کچھ اقامہ یافتگان احسان ونیاز مندی میں ساتھ دیتے ہیں تو پھر تو اس کا یہ راستہ ان کا نہیں، قدرت کی چال معلوم دیتی ہے کہ وہ خود ہی راہ انجام پر لگ گئے ۔ یوں جناب صدر مملکت کا تبصرہ مزید سچا معلوم دیتا ہے۔
اس سارے پس منظر میں سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت سےکہیں آگے کے ابلاغ پر ایک ماہ قید، 50ہزار جرمانے (اور خود بخود) نا اہل ہونے کی سزا، پھر توہین عدالت کی ن لیگی مہم کے دو اور سرخیلوں ، طلال اور دانیال کی اسی الزام میں عدالت طلبی اور جناب نواز شریف، کراچی کی جمہوریت سیمینار اور مریم نواز کی گوجرانوالہ میں حسب معمول عدلیہ مخالف تقاریر نے اب واضح کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ یونہی نہیں ختم ہو گا اب تو عدلیہ کو آئین و قانون کے حوالے سے اپنا دم خم منوا نا ہوگا، یا اسٹیٹس کو ئی طاقت،جو اپنے پارٹی قائد کے قیادت سے محروم ہونے کے بعد اسے قانوناً بحال کرا سکتی ہے، اپنی منفی طاقت سے (خاکم بدہن) عدلیہ کو زیر کرنے میں کامیاب ہو جائےگی۔
ن لیگ تو نہیں (شاید) صرف نا اہلی وزیر اعظم اور ان کی صاحبزادی کی عدلیہ مخالف مہم اس لئے جاری رہتی معلوم دیتی ہے کہ واضح طور پر اس کی منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ یہاں ہاشمی نے جس بند کمرے کی تقریب میں عدلیہ پر رکیک حملہ کیا اور جس طرح جج صاحبان اور جے آئی ٹی کو آل اولاد سمیت دھمکایا گیا اس کیMessage constructionبڑی مکارانہ ہے۔ ہاشمی صاحب نے آتشی تقریر ہی نہیں کی بلکہ اپنی پشت پر گلو بٹ کا کراچی ایڈیشن بھی کھڑا کیا ہوا تھا۔ دوران تقریر دائیں بائیں حرکت کر کے نہال ہاشمی کے ساتھ اپنا چہرہ بھی کیمرے کے سامنے لاتا رہتا جیسے کوئی باقاعدہ پریکٹس کی گئی ہو۔ پس پردہ سفید اسکرین لگائی تھی تاکہ کمرے کی پہچان نہ ہو۔ جو وڈیو بنائی گئی اس میں سامعین کو ایک بار بھی نہیں دکھایا گیا ۔ عدلیہ پر تبرا پرائیویسی میں تھا تو ہاشمی صاحب کی شعلہ نوائی کی وڈیو عام کیوں کی گئی؟ملک کے نظام عدل و الا کے خلاف فسطائی نوعیت کی یہ آڈیو ویژون پروڈکشن اس سے قبل اقامہ یافتگان وزراء کی عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی پھر نا اہل وزیر اور صاحبزادی کی اب تک کے تمام جلسہ ہائے عام میں شدید عدلیہ مخالف تقریریں اورکمال کے صبر جمیل کے بعد سپریم کورٹ کی توقیر اور عدلیہ کے تحفظ کے لئے عدلیہ کے قانونی اقدام (توہین عدالت کے مرتکب کو نوٹسز ) نے بڑا سوال پیدا کر دیا ہے کہ کیا ایک پاپولر سیاسی جماعت کی جانب سے عدلیہ کی توقیر پر حملے جاری رہیں گے یا سپریم کورٹ نے مسئلہ حد سے بڑھنے پر آئین کے آرٹیکل (3)184 کو استعمال کرتے ہوئے جو کارروائی شروع کی ہے، وہ کسی بڑے حتمی نتیجے پر پہنچے گی؟
فقیر کا گمان کہ آرٹیکل (3)184کی حرکت کی برکت غیر معمولی ہو گی اور اس کے نتیجے میں آرٹیکلز 62 اور 63 بھی حرکت میں آئیں گے، جس کے نتیجے میں احتساب کا عمل تیز اور شفاف ہو گا اور پارلیمان کے معیاری ہونے کی شدید ترین قومی ضرورت پوری ہو گی۔ یوں 2018 عدلیہ بمقابلہ اسٹیٹس کو کشمکش کے نتیجے میں فیصلہ ہو جائے گا۔آئین اسلامی جمہوریہ کے مطابق عدلیہ حتمی توقیر پائے گی یا اسٹیٹس کو اسے بمطابق آئین چلنے میں رکاوٹ بنا رہےگا۔

تازہ ترین