• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان’دنوں بیانیہ ‘ اور ’ ایک پیج پر‘پر بہت زور ہے۔ ہم ان ’ اصطلاحات‘کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیںاور تلاش کررہے ہیں کہ ان میں عوام کہاں ہیں!جہاں تک بیانیہ (Narrative)کی بات ہے تو روسی اور فرانسیسی مفکرین کی تشریحات میں، ان دنوں ہمارے ہاںجن معنوں میں بیانیہ مستعمل ہے،کا ذکرِخاص ناپیدہے، تاہم ہم تفصیلات میں نہیں جاتے اور جناب گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا تذکرہ کرتے ہیں ، اساتذہ کے مطابق جن کا نام اس حوالے سے نمایاں ہے۔مشہور نقاد و محقق شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں’’بیانیہ سے مراد ہر و ہ تحریر ہے جس میں کوئی واقعہ یا واقعات بیان کئے جائیں،تاہم ہر بیانیہ وقت کا پابند ہوتاہے ‘‘ گوپی چند نارنگ بیانیہ کے لیے وقت کی قید کو ضروری سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک بیانیہ کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ ماضی سے تعلق رکھتا ہو۔نارنگ صاحب لکھتے ہیں’’ حال اور مستقبل میں Imperfectiveیعنی پیرایہ دیکھنے والی نظموں( شاعری) میں زیادہ تر بیانیہ نہیں فقط بیان ہوتا ہے ‘ یا پھر یہ منظر یہ ہوتی ہیں‘‘بیانیہ میں وقت کی جو اہمیت ہے ‘ یہ صرف نظموں میں یا شاعری میں ہی نہیں بلکہ ہر بیانیہ چاہے وہ نثر میں ہو یانظم میں‘ اس میں وقت کی اپنی اہمیت ہے ۔جہاں فن پارے میں ماضی بطوروقت ہوگا وہاں بیانیہ کی گنجائش زیادہ ابھرتی ہے ۔جہاں حال ومستقبل بطور وقت استعمال میں آیا ہو وہاں بیانیہ کے پنپنے کے آثار نسبتاً کم ہوتے ہیں۔اب آپ دیکھیں کہ ان دنوں بیانیہ کن معنوں میں مستعمل ہے،یہاں تو بیانیہ مستقبل ہی کی ٹھوس منصوبہ بندی یا حال یعنی موقف کے تناظر میں استعمال ہورہا ہے،خیر ہم لاعلموں کا اس سے کیا لینا دینا، اہلِ علم ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
جہاں تک ایک پیج(page) کی اصطلاح ہے،تواساتذہ اسے اردو زبان وبیان میں ’’بدعت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اب ایک کے ساتھ پیج (page) کا مرکب کیا بے ڈول مذاق نہیں، خیر ہم تو سادہ پختون ہیں،جو کہتے ہیں کہ ہمارا باپ حقہ پیتی ہے ،ہمارا ماں روٹی پکاتا ہے،اس اصطلاحی نکتہ کی کج ادائی پر بحث کاتوان کہاں رکھتے ہیں، ہاں یہ خیال آتا ہے کہ اگرایک کےساتھ اصطلاحی طور پرPageلگ سکتاہے،تو ون(One) کے ساتھ صفحہ کیوں نہیں،یعنی ون صفحہ پر....
اب ہم آپ کی توجہ اصل مقصد کی طر ف مبذول کراتے ہیں ۔بلامبالغہ وطن عزیز میں ایشوز کا انبار لگا ہوا ہے، آخر میڈیا ان سے صَرفِ نظر کرے تو کیسے کرے! لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں عوام کی جان ِ شیریں کا ’ بیانیہ ‘کہاں ہے؟اور یہ کہ عوام میڈیا کی اہمیت کے کس Pageپرہیں! میڈیا پر جاری نوحہ خوانی میں عوام کو زندہ درگور کئے رکھنے والے مسائل جیسے مہنگائی و بے روزگاری پر یومیہ کتنے آنسو بہائے جاتے ہیں۔یہ تسلیم کہ پانامہ کیس سے لیکر شیخ رشید کے استعفے اور طاہر القادری صاحب کی لن ترانیوں تک دراز ایشوز کا تعلق بھی عوام سے ہی ہے، لیکن دیکھنا یہ چاہئے کہ عوام کی زندگی ان ایشوز سے کتنی متاثر ہو رہی ہے اورحالیہ پیٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ان کی زندگی کس قدرمزیدمشکل بنا دیگا ۔ باالفاظ دیگر عوام کس ایشو سے براہ راست متاثر ہیں یا کس سے زیادہ اور کس سے کم ہیں۔ یہ منطق درست ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کو بھی سیاسی اور بین الاقوامی موضوعات ہی نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہاں مہنگائی اور بے روزگاری جیسے عوامی مسائل کس قدر حل طلب ہیں، کہ جن پروہ وقت صَرف کرے؟
یہ عجیب تماشا ہے کہ پاکستان میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں اچانک آسمان پر پہنچا دی جاتی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ! اسلام نے ذخیرہ اندوزی کی سختی سے ممانعت کی ہے لیکن مذہبی جماعتیں ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی لانگ یا شارٹ مارچ نہیں کرتیں، نہ جانے کیوں!؟تجز یوں میں اس حوالے سےکتنی بات ہوتی ہے؟ جس معاشرے میں سرکاری افسران بے حس اور حکمران ان کی گرفت سے لا تعلق ہو جائیں، وہاں کس بنیاد پر اس جمہوریت کا دعویٰ کیا جاتا ہے جو عوام سے ہوتی ہے اور عوام کے لئے ہوتی ہے؟ جہاں بالادست طبقات اور مذہبی اشرافیہ اژدھے بنے غریبوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ہڑپ کرنے لگ جائیں، وہاں انقلاب آ کر رہتے ہیں۔ پاکستانی سرزمین بھی انقلاب کے لئے زرخیز ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ یہاں انقلاب کا تصور بھی محال ہے؟ کیوں کوئی ایسی قیادت جڑیں نہیں پکڑ پاتی جس پر اجماع امت ہو، یہ کون ہیں جنہوں نے عوام کو مسلکوں میں تقسیم کر رکھا ہے، جو ایک کے بعد دوسرا ایشو لا کر عوام کو اپنے حقیقی مسائل و فرض سے بیگانہ کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں ہر ایک کا اپنا اپنا جہاد کیوں ہے۔ جب بھی آمریت یا آمروں کیخلاف کوئی سوچ سر اٹھانا شروع کر دیتی ہے، وہ کون سے سیاستدان اور مولوی صاحبان ہوتے ہیں جو نظریہ پاکستان اور اسلام خطرے میں ہے، جیسے نعروں سے مزین تلوار لے کر اس سوچ کی بیخ کنی کو یہود و ہنود کا سر قلم کرنے کے مترادف گرداننے لگتے ہیں۔ وطن عزیز میں سونے، تانبے، تیل، گیس اور ہر نوع کے خزانوں وسائل کے باوجود آخر ہم عوام کی یہ حالت زار کیوں ہے ۔کیا ان سوالات کے جواب تلاش کرنا وقت کی ضرورت نہیں،یا صرف بیانیہ بیانیہ ہی کی رٹ لگی رہیگی....ہم ان سطور میں اس سے قبل بھی فیض صاحب کی نظم ’’کتے‘‘سنا چکے ہیں،آئیے پھرسنتے ہیں، اس احسا س کے ساتھ کہ کاش!کبھی عوام بھی تمام’ بہروپیوں‘کے خلاف باہم متحد ’ون صفحہ پر‘آجائیں ...
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بِگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اُکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بُھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقائوں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذِلت دلا دے
کوئی اِن کی سوئی ہوئی دُم ہلا دے

تازہ ترین