• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی اقتصادی فورم کا 48 واں اجلاس 23 سے 27 جنوری تک سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں منعقد ہوا جس میں 70 سے زائد ممالک کے سربراہان، 38 سے زائد عالمی تنظیموں کے سربراہان، کارپوریٹ اداروں، صنعت و سرمایہ کاری اور سیاست سے تعلق رکھنے والے 3 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اجلاس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمیت مختلف ممالک کے سربراہان کے علاوہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے بھی خطاب کیا۔ اجلاس میں اطالوی وزیر اعظم پاؤلو جینٹی لونی، صدرِ فرانس ایمانیول میکخواں، برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، ارجنٹینا کے صدر مارسیو میکری، صدر برازیل مائیکل ٹیمر، وزیراعظم ناروے ارنا سولبرگ، سویڈن کے وزیر اعظم اسٹیفن لوفن اور لبنان کی وزارتی کونسل کے صدر سعد الحریری شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ لبنان کے شاہ عبداللہ دوم اور ملکہ رانیہ، نیدر لینڈ کی ملکہ میکسیما اور سعودی عرب کے شہزادے ترکی الفیصل نے بھی شرکت کی۔ عالمی بزنس سیکٹر کی نمائندگی کیلئے فیس بک کے شیریل سنبرگ، مائیکروسافٹ کے سی ای او ستیا ندیلا، گوگل کے سی ای او سندر پچائی، مائیکروسافٹ کے بل گیٹس، علی بابا کے چیئرمین جیک ما اور آئی بی ایم کی سی ای او جنی رومیٹی سمیت دیگر شرکاء بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ورلڈ اکنامک فورم میں شاہ رخ خان اور ایلٹن جون کو ان کی خدمات پر اعزازات دیئے گئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ورلڈ اکنامک فورم کے صدر پروفیسر کلائوز سواپ کی دعوت پر وزیر خارجہ خواجہ آصف، وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ، وزرائے مملکت مریم اورنگزیب اور انوشے رحمان کے ہمراہ اجلاس میں شرکت کی۔وزیراعظم پاکستان نے اجلاس کے دوران عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ترقیاتی بینک کے سربراہان کے علاوہ دیگر ممالک کے صدور اور وزیراعظم سے اہم ملاقاتیں کیں اور خطے میں پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت پر زور دیا۔ آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر نے ورلڈ اکنامک فورم میں اپنے خطاب میں پیش گوئی کی کہ رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہوگا۔
عالمی اقتصادی فورم کا قیام 1971میں عمل میں لایا گیا۔ اس فورم کا ہیڈ کوارٹر سوئٹزرلینڈ کے شہر Cologny میں ہے۔ سالانہ اجلاس میں کارپوریٹ ورلڈ کی قیادت کو بدلتے ہوئے عالمی، علاقائی، تجارتی اور معاشی حالات کے پیش نظر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کیلئے جمع ہوتے ہیں۔ اس سال فورم کا عنوان ’’منقسم دنیا کے مشترکہ مستقبل کی تشکیل‘‘ تھا جبکہ فورم کے مقاصد میں ایک اہم مقصد سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر ابھرنے والی تقسیم کو عدم برداشت، تذبذب اور بے عملی کا سبب بننے نہیں دینا تھا۔ شاہد خاقان عباسی 24جنوری کو ’’ بیلٹ اینڈ روڈ امپیکٹ‘‘ کے عنوان سے ہونے والے پینل ڈسکشن کے شرکا میں شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بیلٹ اینڈ روڈ امپیکٹ (BRI) براعظموں میں رابطہ بڑھانے کا ایک بہترین منصوبہ ہے جو 80 ممالک سے گزرے گا جس سے دنیا کی 40 فیصد جی ڈی پی گروتھ ہوگی۔پینل ڈسکشن کے دوسرے شرکاء میں ایشین انفرااسٹرکچر بینک کے صدر، رشین انویسٹمنٹ فنڈ کے چیف ایگزیکٹو، سنگاپور کے وزیر چین چونگ سنگ شامل تھے جنہوں نے علاقائی روابط کے فروغ کیلئے جدید انفرااسٹرکچر کی ضرورت پر زور دیا۔ عالمی رہنمائوں نے ڈیووس فورم میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’گلوبلائزیشن‘‘ کا عہد ختم ہورہا ہے اور دنیا پروٹیکشن ازم ( Protectionism) کا شکار ہے۔ ڈیووس فورم میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ دنیا کو چین سے خوف ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فورم میں کہا کہ امریکہ فری ٹریڈ کیلئے اوپن ہے لیکن انہوں نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہوئے آزاد تجارت کی مخالفت کی تھی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پہلے امریکہ (America First)کا مطلب تنہا امریکہ نہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان بہت زیادہ تجارتی عدم توازن ہے اور دنیا چین کے ساتھ ’’ تجارتی جنگ ‘‘ کی طرف گامزن ہے لیکن اس تجارتی جنگ سے تجارتی عدم توازن ختم نہیں ہو گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ سی پیک منصوبوں اور پاکستان میں انرجی کی بہتر سپلائی کے مدنظر ملکی سیمنٹ انڈسٹری میں 56 فیصد گروتھ ہوئی ہے جو پاکستانی معیشت پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سی پیک منصوبوں کے تحت اپنازمینی، سمندری اور ریل نیٹ ورک بڑھاکر وسط ایشیائی ریاستوں کو علاقائی ممالک سے ملائے گا جس سے نئی ملازمتوں کے مواقع سے خطے میں خوشحالی آئے گی۔
اجلاس کے دوران پاکستان کے پاتھ فائنڈر اور مارٹن ڈو فارما گروپ نے روایتی پاکستانی بریک فاسٹ کا اہتمام کیا تھا جس کے مہمان خصوصی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تھے۔ موجودہ اقتصادی اور قومی سلامتی کی صورت حال، خطے میں آنے والی تبدیلیوں اور ان کے پاکستان پر اثرات سمیت پاکستان کیلئے سی پیک کی معاشی اہمیت سے متعلق وزیر اعظم نے تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ پاکستان بریک فاسٹ میں بلاول بھٹو کی موجودگی ایک یاد گاری موقع تھا۔ انہوں نے انٹرنیشنل میڈیا کو پراعتماد انداز میں انٹرویو دیئے جس نے 24 سال قبل ورلڈ اکنامک فورم میں اُن کی والدہ بینظیر بھٹو کی شرکت کی یاد تازہ کردی۔ اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وسعت قلبی سے بلاول کی موجودگی کو سراہا۔اس سال نجی شعبے میں پاتھ فائنڈر گروپ اور مارٹن ڈو گروپ نے ہوٹل کے گرین ہاؤس میں پاکستان کا سافٹ اور مثبت امیج دنیا کے سامنے لانے کیلئے ایک چھوٹا پاکستان پویلین بھی منعقد کیا تھا جس کے ذریعے آئی ٹی، میڈیا کے انٹرپینیورز اور حکام، فنانشل سروسز، سوشل سروسز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو بین الاقوامی سرمایہ کاروں، ماہرین اور حکام سے رابطے کا موقع ملا۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے وفد نے عالمی لیڈروں سے ملاقات اور اجلاس کے مختلف پینل ڈسکشن اور اپنے خطابات میں پاکستان کی بہتر معاشی ترقی، توانائی کی بہتر سپلائی، ملک میں دہشت گردی پر قابو اور امن و امان کی بہتر صورتحال کو اجاگر کیا۔ وزیراعظم نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ جس میں ہمیں ہزاروں افراد کی جانوں اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے، میں پاکستان کی قربانیوں کو اجاگر کیا۔ دنیا نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی افواج کے آپریشن دنیا کیلئے ایک کامیاب اسٹوری ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے سی پیک منصوبوں اور ان کی خطے میں اہمیت پر تفصیل سے خیالات کا اظہار کیا تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔
پاکستانی سیاسی اور بزنس لیڈرز کی جانب سے عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کو اہمیت دینا انتہائی ضروری ہے۔ وہ دنیا جسے ہم اب گلوبل ویلیج کہتے ہیں، تیزی سے باہمی طور پر مربوط ہوچکی ہے۔ اکثر دوطرفہ ملاقاتیں پاکستان کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوسکتی ہیں لیکن ڈیوس کے عالمی اسٹیج پر ہمیں دیرپا سافٹ امیج نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا بھر کے امیر ترین، طاقتور اور بااثر حلقوں کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ عالمی اقتصادی فورم معاشی، سماجی اور سیاسی حوالے سے منعقد ہونے والا اہم ترین ایونٹ بن چکا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کا مشن ’’دنیا کے حالات میں بہتری‘‘ ہے جس کا اصل مفہوم عالمی لیڈز کے باہمی تعاون سے عالمی، خطے اور کاروباری ایجنڈے کی تشکیل ہے۔ ڈیوس میں آپ کا بیانیہ نہ صرف سنا گیا بلکہ اسے اہمیت بھی دی گئی۔ ڈیوس اجلاس پاکستان کو دنیا سے مثبت انداز میں متعارف کروانے کیلئے ایک انتہائی اہم فورم ہے، پاکستان کے حکومتی اور کارپوریٹ شعبے کو فورم میں شرکت کو اہمیت دینا ہوگی۔ میرے نزدیک وزیراعظم پاکستان اور ان کے وفد کے ورلڈ اکنامک فورم کے حالیہ دورے کو پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے کی ایک کامیاب کوشش کہا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین