• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھی کوئی قوم یا گروہ آزمائشی وقت میں اپنے ساتھیوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے،ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے۔دوستوں کو غلطی کے باوجود بھی تنہانہیں چھوڑا جاتا۔دوست غلطی بھی کرتے ہیں اور غلط فیصلے بھی کربیٹھتے ہیں مگر انہیں Disown کرنا کہیں کا اصول نہیں ہے۔دشمن کا سب سے موثر حملہ ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ کو مخلص دوستوں اور ساتھیوں سے محروم کردیا جائے۔مگر دوستوں کے اخلاص پر کبھی شک نہیں کرنا چاہئے۔آج جو کچھ بھی نہال ہاشمی کے ساتھ ہو ا ہے ، اس میں اصل نقصان مسلم لیگ ن کا ہے۔نہال ہاشمی نے اپنی تقریر میں جو بھی باتیں کیں،وہ نامناسب تھیں۔فرط جذبات نے ہاشمی صاحب نے وہ کچھ کہہ دیا ،جس کا دفاع کرنا ممکن نہیں۔مگر نہال ہاشمی کا موقف تھا کہ انہوں نے یہ سب باتیں کسی عوامی اجتماع میں نہیں کیں بلکہ ایک ذاتی نوعیت کی محفل تھی ،جس میں میڈیا بھی مدعو نہیں تھا۔بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی تقریر کا ایک حصہ توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔لیکن تقریر منظر عام پر آنے کے بعد مسلم لیگ ن کے اکابرین نے جس قسم کا ردعمل دیا اور چند منٹوں میں ہی نہال ہاشمی کو Disownکرتے ہوئے سینیٹر شپ سے مستعفی ہونے کا حکم دے دیا۔اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔نہال ہاشمی کو بند کمرے میں پارٹی کی طرف سے جو کچھ بھی کہہ دیا جاتا مگر Publicalyان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہئے تھا۔جب آپ کسی غلطی پر خود ہی اپنے دوستوں کو سخت سزائیں دیتے ہیں اور عوامی سطح پر انہیں اپنے سے دور کردیتے ہیں تو پھر یہی ہوتا ہے جو آج نہال ہاشمی کے ساتھ ہوا۔نہال ہاشمی متوسط طبقے کا ادنیٰ سا کارکن ہے۔مگر جے آئی ٹی کے حوالے سے جو اس کے جذبات تھے ،آج وہ ہر مسلم لیگی کے جذبات ہیں۔بس جذباتی نہال ہاشمی نے اپنے جذبات کا بے ڈھنگے طریقے سے اظہار کردیا اور باقی لوگ اداروں کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ نہال ہاشمی کو جو حمایت مسلم لیگ ن سے ملنی چاہئےتھی ،وہ نہیں ملی۔نہال ہاشمی کو ایک جرم میں تین،تین سزائیں سنادی گئیں۔سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا ٹوئٹ نظروں سے گزرا ہے ،جس کا متن یہی تھا کہ توہین عدالت میں سزا تو سمجھ آتی ہے مگر پانچ سال کی نااہلی کس قانون کے تحت کی گئی؟ بہرحال میں کسی قانونی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا مگر آج بہت افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ نہال ہاشمی ہے تو بہادر مگر کمزوروں کے لشکر میں ہے۔
آج جب نہال ہاشمی کے خلاف ہونے والا ایکشن نوازشریف کے تمام ساتھیوں کو پیغام ہے کہ جو بھی اس لشکر میں نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔نہال ہاشمی کو تنہا چھوڑ کر اور تقریر کے بعد قبول نہ کرکے مسلم لیگ ن کے اکابرین نے کسی کا کچھ نقصان نہیں کیا بلکہ اصل نقصان نوازشریف کا ہوا ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نہال ہاشمی کی تقریر کا دفاع کرنا ممکن نہیں ہے مگر انہوں نے جو کچھ بھی کیا نوازشریف سے بے پناہ محبت میں کیا۔جذباتی آدمی کو اپنی محبت کے اظہار کا طریقہ نہیں آیا اور جیل جا بیٹھا۔نوازشریف کو نہال ہاشمی کو بلا کر سختی سے ڈانٹنا چاہئےتھا اور تنبیہ کرنی چاہئے تھی کہ دشمنی بھی اصولوں سے کی جاتی ہے ۔اپنے مخالفین کے لئے بھی ایسی زبان نامناسب ہے اور یہاں تو معاملہ پھر بھی اداروں کا تھا۔مگر نوازشریف کو پارٹی رہنماؤں کو واضح ہدایت دینی چاہئے تھی کہ سب ساتھی نہال ہاشمی کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے ہوجائیں اور مسلم لیگ ن کا لیگل سیل یہ کیس لڑے گا۔نہال ہاشمی کے پاس تو اچھا وکیل کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے اور وکلاء کے بہت سے بڑے بڑے نام نہال ہاشمی سے اس لئے دور ہوگئے کہ جس شخص کے لئے ہاشمی نے اپنا کیرئیر داؤ پر لگایا اور سخت تقریر کی۔جب اس کی جماعت نے ہی اس کا ساتھ چھوڑدیا تو ہم بھلا کیوں اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔جیسی تقریر نہال ہاشمی نے عدلیہ کے حوالے سے کی تھی۔ایسی ہی تقریر زرداری نے فوج کے حوالے سے پشاور میں کی تھی۔اس تقریر کے بعد نوازشریف اور آصف زرداری کی طے شدہ ملاقات منسوخ ہوگئی تھی۔مگر زرداری کو جب کہیں سے کوئی سپورٹ نہیں ملی تو انہوںنے براہ راست ڈیل کا فیصلہ کیا اور فریال تالپور کو مکمل طور پر اسلام آباد میں ڈیر ے ڈالنے کی ہدایت کی۔آج اداروں سے معاملات ٹھیک ہوچکے ہیں۔کاش نہال ہاشمی بھی ایسی کوئی ڈیل کرلیتا۔لیکن ہاشمی ہے تو بہادرمگر کمزوروں کے لشکر میں ہے۔
نہال ہاشمی کے بعد اب طلال چوہدری اور دانیال عزیز نشانے پر ہیں ۔مگر مسلم لیگ ن کے اکابرین کو چاہئے کہ جوغلطی نہال ہاشمی کے معاملے میں کی ہے۔اس کو دوبارہ مت دہرائیں۔طلال اور دانیال کی پیشی سے روز شاہراہ دستور پر مکمل سپورٹ نظر آنی چاہئے۔مریم نوازصاحبہ نے بہت گہری بات کی ہے کہ جب گواہ ملے نہ پارٹی ٹوٹی تو نوٹس شروع ہوگئے ہیں۔آج ایسی ہی صورتحال ہے۔لیکن جو کچھ نہال ہاشمی کے معاملے میں کیا گیا ہے ،مسلم لیگ ن کو اسے نہیں دہرانا چاہئے۔نہال ہاشمی نے جس موقع پر تقریر کی ،یہی تاثر ابھرا کہ شریف فیملی کا کیس خراب ہوجائے گا۔مگر نہال ہاشمی کی حماقت کو سازش نہیں کہا جاسکتا۔توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی کے بعد معاملے کو رفع دفع کردینے سے اداروں کا بھرم برقرار رہ جاتا۔مارنے سے ڈرانا بہتر ہوتا ہے مگر شاید سالہا سال کی روایت کو نوازشریف کے ساتھیوں کے لئے توڑا گیا۔نہال ہاشمی کی سزا کے بعد پیپلزپارٹی کے ایک دوست نے بہت خوب تبصرہ کیا۔پی پی پی کے ایک سینیٹر کہنے لگے کہ مسلم لیگ ن کے اکابرین اور زرداری صاحب میں یہی فرق ہے۔نہال ہاشمی نے نوازشریف کے بچوں کے دفاع میں تقریر کی اور مارا گیا۔جبکہ راؤ انوار ایک ایس پی رینک کا افسر ہے۔معاملے کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا۔مگر زرداری نے اپنے دوست کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑا۔زرداری نے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے غلط پولیس مقابلہ کرکے میری حکومت کو ایک عذاب میںڈال دیا ہے بلکہ آزمائشی وقت میں اپنے ساتھی کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔پی پی پی کے سینیٹر کی بات پر مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر کہنے لگے کہ اگر اس جگہ ہمارے صاحب ہوتے توشاید وہ ایس پی کو گھر بلا کر گرفتار کروادیتے۔اس لئے مسلم لیگ ن کے دوستوں کو اس قسم کے تاثر کو زائل کرنا چاہئے۔دوستوں کا اگر اخلاص ٹھیک ہوتو ان کی بڑی سے بڑی غلطی اور حماقت کو معاف کرتے ہوئے آزمائشی وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔جو لوگ مشکل وقت میں دوستوں کو چھوڑ دیتے ہیں پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقت انہیں چھوڑ دیتا ہے۔

تازہ ترین