• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچ پوچھیں تو میںگزشتہ چندروزسے بہت نہال ہوں اور دھمال ڈالنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اور خوش کیسے نہ ہوں،پہلے نہال پھر طلال اور اب دانیال.....کیسے مترنم اورقوافی انداز میںقانون کی عملداری قائم کر دی گئی۔یکم فروری 2018ء بہت تاریخی دن تھا۔ویسے تو 31جنوری بھی کچھ کم یادگار نہ تھا جب سپریم کورٹ نے متروکہ وقف اِملاک بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق کو گھر بھیج دیا ،لیکن یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے اور اسے پھر کسی دن کیلئے اٹھا رکھتے ہیں۔فی الوقت یکم فروری کے تناظر میں وارفتگی اور خود ساختہ پن کی جو کیفیت طاری ہے اس کا اظہار کرنے دیں مجھے۔اس روز یہ بات ہمیشہ کیلئے طے کر دی گئی کہ عدلیہ پر تنقید کی حدود و قیود کیا ہیں ؟اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کس حد تک ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے ،توہین عدالت کا ارتکاب کرنے والوں کو کن وجوہات کی بنیاد پر غیر مشروط معافی مانگنے اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے نتیجے میں درگزر سے کام لیا جا سکتا ہے اور کس قماش کے مرتکبین کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔چند برس ہوتے ہیں امریکی جریدے فارن پالیسی نے دنیا بھر کے جمہوری و غیر جمہوری ممالک کی عدالتوں کا تجزیہ کیا اور ایک تقابلی رپورٹ شائع کی۔اس رپورٹ کے مطابق تحرک و فعالیت یایوں کہئے کہ جوڈیشل ایکٹو اِزم کے اعتبار سے جو رینکنگ مرتب کی گئی اس میں مصر کی عدلیہ کو پہلے نمبر پر رکھا گیا جبکہ پاکستان کی عدلیہ دوسرے نمبر پر تھی ،اسی طرح اسرائیلی سپریم کورٹ تیسرے نمبر پر ،بھارتی عدالت عظمیٰ چوتھے نمبر پر جبکہ کویت کی اعلیٰ عدلیہ پانچویں نمبر پر تھی۔یہ رپورٹ تب شائع ہوئی جب افتخار چوہدری صاحب چیف جسٹس تھے ۔میرا خیال ہے کہ اگر اس نوع کی تحقیق دوبارہ ہو تو اللہ کے فضل و کرم سے ہم ترقی کرکے پہلے نمبر پر آچکے ہونگے کیونکہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب عوام کو انصاف فراہم کرنے کیلئے ماشااللہ دن رات بہت محنت کر رہے ہیں اور بعض اوقات ایک ایک دن میں چار چار ازخود نوٹس لینا پڑتے ہیں ۔میں حساب کتاب لگانے کی کوشش کر رہا تھا تو معلوم ہوا کی گزشتہ 32دن کے دوران 36ازخود نوٹس لئے گئے۔ظاہر ہے جب کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا ہو گا ،ہر طرف کام چور، نکھٹو ،نااہل اور بے ضمیر لوگ مسلط ہونگے تو کسی نہ کسی کو تو یہ ذمہ داری اٹھانا پڑے گی اور لوگوں کی دادرسی کرنا ہو گا۔یہ انہی پر خلوص کاوشوں کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے کہ کسی بھی ناانصافی کی صورت میں لوگ اپنے علاقے کے ایم پی اے ،ایم این اے یا وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے بجائے آرمی چیف اور چیف جسٹس سے انصاف کی اپیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔یقینا ًجسٹس (ر) افتخار چوہدری نے بھی بطور چیف جسٹس قوم کی مسیحائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔نہ صرف مفاد عامہ میں از خود نوٹس لینے کی روایت ڈالی بلکہ اداروں میں اقربا پروری اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہونے والی تعیناتیوں کو کالعدم قرار دیا ۔اگر اسٹیل ملز فروخت نہیں ہوئی ،اگر پی آئی اے نیلام نہیں ہوئی اور دیگر قومی ادارے قائم و دائم ہیں تو اس کا کریڈٹ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جاتا ہے وگرنہ لٹیرے حکمراں تو سب کچھ بیچ ڈالتے۔انہوں نے تو ریکو ڈک میں سونے کے ذخائر کوڑیوں کے مول بیچنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار میں بہت مماثلت اور مشابہت ہے اور کیوں نہ ہو دنیا کے تمام عظیم لوگ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ،ایک طرح سے سوچتے ہیں ،ایک طرح سے بات کرتے ہیں۔جسٹس افتخار چوہدری نے بھی خود کو عدلیہ کیلئے یوں وقف کردیا تھا کہ انہیں اپنے بچوں کی ہی خبر نہ ہوتی کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی لاہور میں کی گئی ایک تقریر کے دوران برملا کہہ چکے ہیں ’’میںنے اپنے گھر والوں کو بتادیا ہے کہ ایک سال کیلئے مجھے بھول جائیں‘‘جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں قانون کی عملداری کو یقینی بناتے ہوئے ایک منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا گیا اور جسٹس ثاقب نثار کے دور میں وزیراعظم نوازشریف کو ایوان وزیراعظم سے نکال باہر کیا گیا۔احتساب کا ادارہ نیب جتنا تب متحرک و فعال تھا اس سے کہیں زیادہ کمال کارکردگی کا مظاہرہ اب کر رہا ہے۔تب بھی وزیراعظم یا آرمی چیف کے بجائے چیف جسٹس کے ریمارکس اخبارات کے صفحات اول کی زینت بنا کرتے تھے اور اب بھی سپریم کورٹ کی خبر ہی اخبار کی شہہ سرخی اور نیوز چینلز کی لیڈ اسٹوری بنتی ہے۔جب کچھ لوگ اس کوریج پر بھائو کھاتے ہیں تو سوچتا ہوں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر جلی حروف میں لکھ دینا چاہئے ،حسد نہ کر محنت کر۔یقین کریں مجھے تو پہلی بار جسٹس ثاقب نثار میں اِک مسیحا دکھائی دینے لگے ہیں جو اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں ،جو اس فرسودہ اور گھٹیا نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اب اگر کوئی ایرا غیرانتھو خیرا اٹھ کر ایسی فقید المثال عدلیہ کورگیدنا اور دھمکانا شروع کر دے تو سپریم کورٹ کیا کرے؟ظاہر ہے اداروں کی توقیر اور عظمت بحال رکھنے کیلئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس طرح کے سخت اور تاریخی فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میںبتایا تھا کہ گزشتہ چندروز سےمیں بہت نہال ہوں اسلئے کیفیت طاری ہونے کے باعث موضوع سےبھٹک کر عدلیہ کی فعالیت کے گُن گانے اور چیف جسٹس کی مدح سرائی کرنے لگا ۔
حالانکہ آج تو صرف یکم فروری اور اسکے بعد توہین عدالت کے ضمن میں کئے گئے ان فیصلوں پر عدلیہ کی تعریف و تحسین اور داد کے ڈونگرے برسانا مقصود ہے جو سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت کے ارتکاب پر نشان عبرت بنانے اور پھر طلال و دانیال کو نوٹس جاری کرنے سے متعلق کئے گئے۔نہال ،طلال ،دانیال سمیت یہ جتنے بھی جمہوری قوال ہیں انہیں توہین عدالت میں طلب کرکے نشان ِعبرت بنانا چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو عدالتوں پر تنقید کی جرأت نہ ہو ۔نہال ہاشمی نے کراچی میں کھڑے ہو کر جس لب و لہجے میں بات کی تھی اس کا دفاع کرنا تو مسلم لیگ(ن) کیلئے ممکن نہ تھا مگر ان سوشل میڈیائی مجاہدین کی ہمت کو اکیس توپوں کی سلامی بنتی ہے جو یہ ہارا ہوا مقدمہ بھی بہت جوش و جذ بے سے لڑ رہے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر آپ میری طرح پاکستان میں ایک آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کے خواہاں ہیں تو نہال ہاشمی کو سزا دینے کے فیصلے سمیت ہر عدالتی فیصلے کو بلا چون و چراں یعنی بلا تنقید قبول کرنے کی عادت ڈالیں ۔ عدالتوں کا حترام کریں ۔اگر نہال ہاشمی ،طلال چوہدری ،دانیال عزیز ،خواجہ سعد رفیق ،خواجہ آصف ،ان سب کے قائد سابق وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی دختر نیک اختر مریم نواز صاحبہ کو معلوم نہیں کہ عدلیہ کی عزت و احترام کا سب سے موزوں طریقہ کیاہے اور ادب و تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کیسے کرنی ہے تو وہ مولانا خادم رضوی سے رجوع کریں،دردِکمر میں مبتلاپرویز مشرف سے استفادہ کریں ،نومبر2008ء کی ایمرجنسی کے بعد پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج صاحبان سے مشاورت کریں، ملتان بار کے صدر شیر زمان ایڈوکیٹ سے رابطہ کریںیا پھر ان وکلاء سے ملیں جو اپنے خلاف فیصلہ ہونے پر معزز جج صاحبان کو پھول دے مارتے ہیں، امید ہے بیحد افاقہ ہو گا۔

تازہ ترین