• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ پاکستان کے قیام سے پہلے کی ہے، پہلے ڈوگرہ راج کے خلاف تھی مگر 1947میں یہ تحریک بھارت کے خلاف ہوگئی کیونکہ بھارت کشمیر پر ناجائز طور پر قابض ہوگیا۔ کشمیر کا راجہ بھارت کی طرف جبکہ عوام کی اکثریت پاکستان کے ساتھ تھی۔ ڈوگرہ راجہ نے بھارت سے الحاق کرلیا اور عوام نے اس کو رد کردیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ حیدرآباد دکن میں ہوا کہ حیدرآباد دکن کی ریاست کے حکمراں نے پاکستان سے الحاق کرلیا مگر چونکہ اکثریت ہندوئوں کی تھی تو بھارت نے اس پر پولیس کشی کے ذریعے قبضہ کرکے بھارت میں شامل کرلیا۔ یوں دونوں جگہ بھارت نے جارحیت اور اس اصول کی خلاف ورزی کی جو اصول انگریز، مسلم لیگ اور کانگریس نے مل کر بنایا تھا کہ 547 ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ بھارت یا پاکستان میں شامل ہوجائیں مگر بھارت نے طاقت کے بل پر اِس اصول کو توڑا اور یوں کشمیر تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا بن گیا، 1947ء سے اب تک یہ کئی جنگوں کا باعث بنا اور اب بھارت کے خلاف تحریک آزادی انتہائی زوروشور سے جاری ہے، کہا جارہا ہے کہ یہ تحریک اس مقام پر پہنچ گئی ہے جو برطانوی قبرس میں برطانیہ کے خلاف چلی تھی اور بالآخر برطانیہ کو وہاں سے نکلنا پڑا مگر برطانیہ اپنی حرکت سے وہاں بھی باز نہیں آیا وہاں اختلافات کے اسباب چھوڑ گیا، جو آج بھی موجود ہیں۔ کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف جب مزاحمت شروع ہوئی تو ڈوگرہ افواج کو پیچھے دھکیلتی ہوئی کشمیریوں اور مجاہدین نے ایک تہائی کشمیر پر قبضہ کرلیا جسے آج آزاد کشمیر کہا جاتا ہے، بھارت کے وزیراعظم اس شکست کے بعد اقوام متحدہ جا پہنچے اور یقین دہانی کرائی کہ کشمیر کے عوام استصواب رائے سے طے کریں گے کہ وہ کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں پہلی قرارداد 21 اپریل 1947ء کو پاس ہوئی، اس سے پہلے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اپنا 27 اکتوبر 1947ء کو ٹیلی گرام نمبر 402 پاکستان کے وزیراعظم کو بھیجا کہ وہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری قوم کی مرضی کے عین مطابق کریں گے، اس کی ایک کاپی برطانوی وزیراعظم کو بھی بھیجی۔ 28 اکتوبر 1947ء کو ایک اور ٹیلی گرام وزیراعظم پاکستان کو بھیجا، پھر اس تسلسل میں 31 اکتوبر 1947ء، 21 نومبر 1947ء 25 نومبر 1947ء کو بھی ٹیلی گرام ارسال کئے گئے۔ پھر اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں کے ذریعے یقین دہانی کرائی جن میں مورخہ 30 مارچ 1951ء، 24 جنوری 1957ء، 20 ستمبر 1965ء، 2 جولائی 1972ء، 21 فروری 1999ء کو کشمیریوں کے حق استصواب رائے کو تسلیم کیا گیا۔ بعدازاں 2004ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تو 6 جنوری 2004ء کو مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اس کا اعادہ کسی نہ کسی صورت میں کیا گیا تاہم بھارت ان یقین دہانیوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں اپنی پوزیشن مضبوط کرتا رہا، پاکستان میں اس کے حوالے سے کئی ادوار آئے کہ ایک دفعہ کشمیر پر حمایت کافی کم ہوگئی مگر بعد میں اس حمایت میں شدت آگئی، پھر یہ فیصلہ ہوا کہ ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جائے۔
2018ء کے 5 فروری کے دن میں ہم کشمیریوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ہم صورتِ حال کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ ظلم و ستم میں اضافہ بہت زیادہ ہوگیا ہے، اسرائیل و بھارتی گٹھ جوڑ نےکشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے میں نئے ہتھیار اور زیادتیوں کو بڑھا دیا ہے۔ پہلے پیلٹ گن استعمال نہیں کی جاتی تھی اب کشمیر میں ربڑ کی گولیوں سے درجنوں کشمیریوں کو اندھا یا دیگر جسم کے اعضا کو نقصان پہنچا کر اُن کو محتاج بنا دیا ہے، اس کے علاوہ بھارتی فوجی گھروں میں گھس کر نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہیں اور عورتوں کی بے حرمتی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، سرعام گولیاں چلا کر مار دیتے ہیں، 1947ء سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اب ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے کہ دو ہزار کے قریب فوجی تربیت یافتہ آر ایس ایس کے درندے کشمیر میں حکومتی سرپرستی میں کام کررہے ہیں، وہ نوجوان کشمیریوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور ان نوجوانوں کو بے دردی سے مارتے ہیں،لاٹھیاں برساتے ہیں، کشمیری نوجوان مظفر وانی نے جو تحریک شروع کی تھی وہ رکنے کا نام نہیں لے رہی اور بھارتیوں کی ناک میںنکیل ڈالی ہوئی ہے، کشمیری نوجوانوں کی اس تحریک کو اب ساری دنیا میں پذیرائی نصیب ہورہی ہے، پاکستان سے لے کر فرانس، بلجیم، برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں بڑے بڑے اجتماعات، مذاکرے، کانفرنسوں کا انعقاد ہورہا ہے اور کشمیریوں پر مظالم کو طشتِ ازبام کیا جارہا ہے، کشمیریوں کی مزاحمت نے بھارت میں چلنے والی دوسری علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت پہنچائی ہے، خالصتان کی تحریک آزادی، منی پور، گورکھیا، بوڈولینڈ اور ناچل تحریک کے ساتھ نیکسلائٹ کی تحریک کے زوروشور سے شروع ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی کی انتہاپسندی نے ہیجان پیدا کردیا ہے، مسلمانوں کے ساتھ تو بہت ہی ناروا سلوک کیا جارہا ہے، گائوکشی پر مارا جارہا ہے، اُن کی مسجدوں پر قبضے اور اُن کو نام تبدیل کرنے اور داڑھی والے کو پکڑ کر اُس کی توہین کرنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ اسرائیل کا فلسطینیوں کے بارے میں یہ فیصلہ ہے کہ ان کو مکمل طور پر ختم کئے بغیر فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا، یہی بات بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو سمجھائی گئی ہے جس پر انہوں نے خوشدلی سے عمل درآمد شروع کردیا اور ساتھ ساتھ یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ دنیاکشمیر میں ظلم و ستم کے خلاف کوئی آواز نہیں سنے گی جبکہ ہوا اُس کے برعکس کہ آوازیں زیادہ زوروشور سے اٹھ رہی ہیں۔بھارت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک عالمی طاقت اور اس سے پہلے خطہ کی طاقت بننا چاہتا جس کی راہ میں پاکستان حائل ہے، پاکستان نے اُس کو ہر لحاظ سے روکا ہوا ہے، اُس کی طاقت کو آگے بڑھنے نہیں دیتا، سوائے بنگلہ دیش کے کوئی اُس کے حق میں نہیں،جبکہ سری لنکا اور مالدیپ بھارت کے خوف سے پاکستان اور چین کے قریب ہیں، اس کے باوجود کہ اسرائیل و امریکہ اُس کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ پاکستان اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور کشمیر کا مسئلہ ہر سطح پر اٹھاتا ہے۔ کشمیر میں پاکستان کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور پاکستان کے حق میں نعرہ لگانا اُن کا روزمرہ کا معمول ہے، وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ویسے بھی اس وقت کافی سے زیادہ کشمیری النسل پاکستانی حکومت کا حصہ ہیں۔ یہ بات بھی کشمیریوں کی تقویت کا باعث ہے، ہم جانتے ہیں کہ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ کشمیر کی آزادی کے دن بہت قریب ہیں، اگرچہ صورتِ حال اس سے مختلف نظر آتی ہے مگر اللہ کے نظام کے تحت حالات کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ قائداعظم محمد علی جناح کہہ چکے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تو یہ بات درست ہے اور انشااللہ اس شہ رگ سے بھارتی دبائو جلد گھٹنا شروع ہوجائے گا اور جلد کشمیری پاکستانیوں سے آ ملیں گے۔ یہ بھارت کا بڑھتا ہوا ظلم ہی ہے جو رحمت خداوندی کو جوش میں لانے کا باعث بنے گا۔

تازہ ترین