• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ن لیگ کے بعض ترجمان جو ہروقت کہتے رہتے ہیں کہ عمران خان جھوٹو ں کی مشین ہے مجھے اس سے سخت اختلاف ہے کیونکہ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ انہوں نے سرگودھا میں یہ بیان دیا ’’ کہ 2013کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے میرٹ کے بغیر ٹکٹیں دیں اور مجھے شک ہے کہ پیسے بھی چلتے رہے،اس مرتبہ میرٹ پر ٹکٹیں دیں گے ‘‘ اب اگر ن لیگ کے ترجمان انہیں جھوٹا کہتے ہیں تو یہ سراسرناانصافی ہوگی اور اگر اس کو سچ مانتے ہیں تو پھر اس کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ن لیگ میں بھی ٹکٹو ں کا میرٹ صرف پیسہ ہے ۔ عمران خان سے ہمارا اختلاف ہو سکتا ہے ، ان کی بعض باتیں لوگوں کے لئے ناپسندیدہ بھی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اکثر سچ بول دیتے ہیں، اس کے بعد سیاسی صورتحال اُن کے خلاف چلی جاتی ہے ۔ اب جیسے انہوں نے یہ سچ کہا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں ٹکٹوں کے لئے پیسے بھی چلنے کا شک ہے تو ان کو ہمارا مشورا ہے کہ آپ کا شک سو فیصد درست ہے اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ٹکٹ میرٹ پر دیئے جائیں گے تو شاید یہ بھی ممکن نہ ہو کیونکہ کوئی بھی عام آدمی الیکشن نہیں لڑسکتا، یہ الیکشن صرف پیسے والے لوگ ہی لڑیں گے اور وہی جیتیں گے ۔ اب تو تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر قانون پاس کر دیا ہے جس کے مطابق ایک تو الیکشن کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے ہزاروں روپے سیکورٹی ہے اور پھر قانونی طور پر اجازت ہے کہ ایک صوبائی اور قومی اسمبلی کا امیدوار 20سے40لاکھ روپے تک خرچ کر سکتا ہے ، اس لئے شاید ان کا سچ آئندہ الیکشن میں جھوٹ کی وکالت کر رہا ہوگا۔ پھر کوئی بھی پارٹی بغیر سرمائے کے ایک دفتر نہیں بنا سکتی۔ جب آپ نے تحریک انصاف بنائی تھی تو اس وقت پیسہ نہیں بلکہ ’’ نظریئے ‘‘ کا چرچا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظریہ پیچھے اور پیسہ چھانے لگا اور لوگوں نے اے ٹی ایم مشینوں کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور آپ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اب پیسہ نہیں چلے گا بلکہ میرٹ پر الیکشن ٹکٹ دیئے جائیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو کیونکہ عوام واقعتا ًا سٹیٹس کو کو توڑنا چاہتے ہیں اور آپ سے اس کی امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن اگر آپ نظریاتی بنیادوں پر اپنی تنظیم سازی نہیں کرتے اور پارٹی چلانے کے لئے ا سٹیٹس کو پر انحصار کریں گے تو نہ کبھی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی قانون کی حکمرانی قائم ہوسکتی ہے۔ آپ کو ایک اوراعتراف بھی کرنا چاہئے کہ خیبر پختوانخوا میں کرپشن ، بجلی چوری ہوتی ہے اور سپریم کورٹ نے پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے صحیح سوال اٹھایا ہے؟کیا پیسے کے بغیر آپ جلسے ، جلوس اور دھرنے کر سکتے ہیں ، کیا اے ٹی ایم مشینوں کے بغیر ملک کے طوفانی دورے ہو سکتے ہیں؟ یہ آپ کے لئے سوچنے کی بات ہے کیونکہ اب عوام بھی قول و فعل کے تضادات سے تنگ آچکے ہیںاور آپ سے اچھی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔
ملک کی سیاسی صورتحال سے ایک مرتبہ تو یہ لگتا تھا کہ شاید سینیٹ کے انتخابات نہ ہوں اور بلوچستان ، کے پی کے اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں۔ عملی مظاہر ہ بھی اس وقت نظر آیا جب سینیٹ الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور ایک ایسے ممبر صوبائی اسمبلی کو وزیراعلیٰ منتخب کر لیا گیا جو صرف ساڑھے پانچ سو ووٹ لیکر ممبر منتخب ہوئے تھے۔ یہ تو بھلاہو الیکشن کمیشن کا جس نے فوری سینیٹ الیکشن شیڈول کا اعلان کر دیا ، اب اسمبلیاں توڑنے کے امکانات بہت ہی کم ہوگئے ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی لالچ ہے، انہیں معلوم ہے کہ 3مارچ کو ہونیوالے سینیٹ انتخابات میں 52سینیٹرز کاانتخاب ہوگا جس میں 12سندھ، 12پنجاب اور گیارہ گیارہ بلوچستان اور خیبر پختوانخوا جبکہ چار سینیٹرز فاٹا اور دو اسلام آباد سے منتخب ہوںگے، ہر ایک کو ڈر ہے کہ موجودہ سینیٹرز کی اکثریت کا دوبارہ منتخب ہونا مشکل ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سینیٹ الیکشن میں ہمیشہ خصوصاً بلوچستان ، کے پی اور فاٹا میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ تو یہ اپنے عروج پر ہے ۔ فاٹا کے گیارہ ارکان کو 4سینیٹرز منتخب کرنے ہیں اور خدشہ یہ ہے کہ فی سینیٹر کا خرچہ مبینہ طور پر ڈیڑھ ارب تک ہوگا ۔ بلوچستان میں اکثریت آزاد منتخب ہوگی اور حالات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے حالانکہ بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی رکن پیپلز پارٹی کا نہیں۔ بلاول بھٹو تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ تحت لاہور میں لڑائی کا فائدہ سینیٹ انتخابات میں اٹھائیں گے ،ادہرکے پی میں اسفند یار ولی ، مولانا فضل الرحمن ، آصف زرداری اور آفتاب شیر پائو اپنے مفاہمتی انداز میں سیاسی گھوڑوں کی خریدوفروخت کی تاریخ رقم کریں گے۔ اس وقت سینیٹ میں اپنی مدت پوری کرنے والے52ارکان میں سے پیپلز پارٹی کے 18، ن لیگ کے کل 27میں سے 9ریٹائرڈ ہو جائیں گے،ق لیگ کے چاروں سینیٹرز ریٹائر ہو ں گے ۔ اسی طرح جے یو آئی ف کے تینوں سینیٹرز فارغ ہوںگے ۔ ایم کیو ایم کے 4جبکہ اے این پی کے 6 میں سے 5سینیٹرز ریٹائر ہوںگے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2سینیٹرز اپنی مدت پوری کریں گے ، دس آزاد میں سے 5ریٹائر ہو ںگے۔ جبکہ تحریک انصاف کے 7سینیٹرز میں سے ایک ریٹائر ہو رہے ہیں ،عام انتخابات میں بہت ہی کم وقت رہ گیا ہے اور خریدو فروخت کے جدید ترین طریقے ایجاد ہوچکے ہیں اس لئے ’’ہماری بدترین جمہوریت ‘‘ اپنے آخری انجام کو ہے۔ ممکن ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد جمہوریت کی نئی تعریف سامنے لائی جائے جس کی ذمہ دار حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں ہونگیں ، جنہوں نے کئی سال تک الیکشن ریفارمز کے نام پر قوم کا پیسہ ضائع کیا اور ’’ مفادات ریفامز‘‘ بنائیں اور جان بوجھ کے سینیٹ کے الیکشن کے طریقہ کار میں بہتری نہ لائے ۔ سیاستدان اپنے آپ کو مقدس گائیں سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف توہین عدالت اور سوموٹو نہیں ہونا چاہئے ۔ بس ان سب حکمرانوں اور سیاستدانوں کے حوالے سے اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے لگائی گئیں گرہ کو دانتوں سے بھی نہیں کھول سکیں گے ۔

تازہ ترین