• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دانائے راز کہتا ہے کہ ملک کے حالات خراب ہورہے ہیں۔ میں عرض کرتاہوں کہ تشویش میں مبتلا نہ ہوں، انتخابی سال یعنی Election Year میں ایسا ہی ہوتاہے۔ سیاست میں گھمسان کا رن پڑتا ہے، پارے چڑھ جاتے ہیں، ایک دوسرے پر پتھر پھینکے جاتے ہیں اور دل میں گالیاں دی جاتی ہیں اور ہرشے تنقید کی زد میں آتی ہے۔ یہ حالات کی خرابی کی علامت نہیں بلکہ جمہوری عمل اورپاکستانی جمہوریت کی غیرپختگی کی علامتیں ہیں۔ نہ سیاستدا ن پختہ ہوتے ہیں، نہ سیاسی طور پربالغ ہوتے ہیں اور نہ ہی جمہوری عمل بچپن کی منزل سے آگے بڑھا ہے۔ اسی لئے آپ کو سیاسی کھیل کی بجائے نفرتوں کا کھیل، فراخ دلی، درگزر اور برداشت کے بجائے انتقام کا الائو بھڑکتا نظر آتا ہے۔ جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے، نفرتوں کے الائو بڑھتے جائیں گے اور آگ کی قوت بڑھتی جائے گی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ انتخابات ہماری تاریخ میں حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں۔ میر ےاندازے کے مطابق اگلے انتخابات ہماری سیاست کی نئی منزل میں داخل ہوجائیں گے کیونکہ 2018کے انتخابات لڑنے والی قیادت،مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز، اگلے انتخابات تک عمر کے حوالےسے بزرگی کے اس مقام پر کھڑ ےہو ںگے جہاں اکھاڑے کے باہر بیٹھ کر دائو پیچ سکھائے جاتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ یہ ان کا شاید آخری الیکشن ہے۔ اس کے بعد ان کی اگلی نسلوں کی باری ہے۔ اگلی نسلوں کو ابھی سے تربیت دینا اور اکھاڑے میں اتارنا ضروری ہے کیونکہ سیاسی چہروں کو مانوس ہونے میں اور ان کی آواز کو عوام کے دلوں میں امیدوں کے چراغ جلانے کے لئے کم ازکم پانچ برس درکار ہوتے ہیں۔ اگلے انتخابات تک اسی حکمت عملی کوعملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ زرداری صاحب بلاول کو لانچ کرچکے ہیں، میاں نواز شریف مریم بیٹی کو اکھاڑے میں اتار چکے ہیں، چوہدری برادران مونس الٰہی پر توجہ دےرہے ہیں البتہ عمران اس ضمن میں گھاٹے میں رہے گا اورشادیوں کی سیاست کرتارہے گا اور میاں شہباز شریف کا جانشین حمزہ شہباز سیاسی بلوغت کی منزلیں طے کرنے کے لئے عمران خان کو للکارتا رہے گا۔ دوستو! یہ انتخابات کا سال ہے، کچھ لیڈروں کی آخری باری ہے اور کچھ نئے چہروں کو متعارف ہونا ہے،اس لئے سیاست میں شدت اور تیزی آئے گی، اداروں پر غصے نکلیں گے، الزامات بہ وزن گالیوں کا تبادلہ ہوگا، نفرتوں کو پروان چڑھایا جائے اور جسے بھی قانون شکنی کی سزا ملےگی، وہ چیخے چلائے گا اور دیکھنے والے نعرے لگائیں گے کہ اسے مارو، اسے اور مارو حالانکہ عدالتی سزائوں سے سیاستدان مرتا نہیں بلکہ ابھرتا اور مضبوط ہوتاہے۔ یہ بھی نابالغ سیاسی معاشرے کی نشانی ہے جہاں رائے عامہ نابالغ ہووہاں عدالتی سزائیں ہمدردی پیدا کرتی ہیں، جرم پس منظر میں چلا جاتا ہے اورمجرم مظلوم بن کر ہمدردی کماتا ہے۔ معاشرہ تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پر بالغ ہو تو عدالتی سزائیں سیاستدان کو عوامی نظروں میں مجرم ٹھہرا کر سیاسی حوالے سے کمزور کردیتی ہیں۔ تھرڈ ورلڈ (Third World) میں سیاستدان خواہش کرتا ہے کہ انتخابات کے قریب اسے کچھ عرصے کے لئے جیل بھیج دیا جائے تاکہ عوام اس کی اور اس کی پارٹی کے امیدواروں کے بیلٹ باکس ووٹوں سے بھر دیں لیکن ترقی یافتہ بالغ معاشروں میں سیاستدان کسی عدالتی داغ سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں تاکہ رائے عامہ انہیں سنے بغیر مسترد نہ کردے۔ حالات کی بہتری اور روشن مستقبل کااس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے دو اہم ادارے جمہوریت کی بقا کی ضمانت دے رہےہیں۔ ماضی میں کیا ہوتا رہا؟ یہی نا کہ خلفشار کافائدہ اٹھا کر فوج اقتدار پر قبضہ کرتی رہی اور عدلیہ اس کے قبضے کوجائز قرار دیتی رہی، عوام خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ آرمی چیف بھی جمہوریت کی حفاظت کا یقین دلا رہا ہے اور چیف جسٹس بھی آگے بڑھ بڑھ کر وعدہ کر رہا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیںگے۔ یہ ایک ایسی اہم پیش رفت ہے جس پر سیاسی حلقوں کو بینڈ باجے بجانے چاہئیں مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ طاقتور سیاست کے بلند وبالا پلیٹ فارم سے عدلیہ پر بھی نوکیلے پتھر نشانے باندھ باندھ کر ماررہے ہیں، عدل کو مطعون کیاجارہا ہے، عدلیہ کے احترام میں شگاف ڈالے جارہے ہیں اور دوسری طرف فوج پر بھی ہر قسم کے شکوک اور الزامات کی گولہ باری جاری ہے۔ عدلیہ سے اس بات کا انتقام لیا جارہا ہے کہ اس نے مقدمے کا فیصلہ خلاف کیوں دیااورفوج کو اس کاماضی یاد دلا کر خدشات کا اظہار کیاجارہا ہے۔ دراصل یہ سب نابالغ اورغیرپختہ جمہوری عمل کی علامات ہیں۔ جمہوریت کاحسن فراخد لی ، برداشت، انسانی مساوات اور عدل ہوتا ہے مگر یہ اوصاف ہماری جمہوریت کے لئے محض کتابی باتیں ہیں اور ماشاء اللہ ہمارے قائدین کو کتابیں پڑھنے کا عارضہ ہرگز لاحق نہیں۔ ہماری جمہوریت ایسی قبائلی سوچ اور کلچر کی عکاسی کرتی ہے جس میں اختلاف دشمنی کہلاتا ہے، انتقام لینامردانگی اور وقار کا تقاضا سمجھا جاتا ہے، نفرت عظمت کی علامت کہلاتی ہے، خوشامد، دربارداری، اقربا پروری، دوست نوازی، لاقانونیت، میرٹ اور انصاف کی پامالی وغیرہ قبائلی سردار کےتاج میں سجے ہوئے ہیرے جواہرات ہوتے ہیں۔ اگرعدالتیں لوٹ مار، اختیارات کا ناجائز استعمال اور آمرانہ رویوں کا نوٹس لیں تووہ دشمن ٹھہریںاور انہیں بار بار یاد دلایا جائے کہ اپنے اپنے دائرے میں رہو۔ مطلب ہمیں من مانی کرنے دو اور تم معمول کے مقدمات نپٹاتے رہو۔ قوم گندا پانی، ملاوٹ شدہ دودھ اورزہریلی اشیائے خورونوش کھا کر بیماریوں میںمبتلا ہوتی رہے، جعلی پولیس مقابلے جاری رہیں، جرائم سر چڑھ کر بولتے رہیں، اسپتالوں میں مریض علاج کے لئے تڑپتے رہیں، خوشامدی خزانہ لوٹتے رہیں لیکن تم خاموش رہو کیونکہ یہ جرائم عدالتی انصاف کے دائرہ کارمیں نہیں آتے۔ اس سے ہماری ہتک ہوتی ہے اور ہماری کارکردگی پر حرف آتا ہے۔
یہ یلغار، یہ غدر انتخابات کے سال کا حصہ ہے۔ مریم بیٹی تربیت کا پہلا امتحان پاس کرچکی ہے۔ گوجرانوالہ جیسے شہر میں وہ تنہا ایک بڑے جلسہ عام سے بھرپور خطاب کے بعد بی بی کی یاد تازہ کرچکی ہے ۔ بی بی بھی ایک مظلوم قائد کی بیٹی تھی اور مریم بھی ایک’’مظلوم‘‘ باپ کی بیٹی ہے۔ بہادری کا تاثر پیدا کرنے کے لئے پتھر مارنے ضروری ہوتے ہیں۔ چند ایک مزید ایسے جلسے کرنے کے بعد اور جلوسوں کی قیادت سے قائدانہ ہنر سیکھنے کے بعد وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ کر پنجاب کی وزیراعلیٰ بن سکتی ہے کیونکہ یہ وزارت ِعظمیٰ کے لئے پہلی سیڑھی ہے۔ کل بابا کہہ رہا تھا شہباز وزیراعظم بن گیا ہے۔ تمہارا دوست نواز بھولا بندہ ہے۔ کل کیا ہو خدا بہتر جانتا ہے لیکن فی الحال مریم حمزہ کا پتا کاٹ چکی ہے۔ بلاول اپنے تمام ترکرشمہ کے ساتھ میدان میں اترا ہے لیکن اس بار سندھ تک محدود رہے گا۔ اسے سلطنت پھیلانے میں وقت لگے گا۔ یہ انتخابات کا سال ہے اور بزرگ سیاستدانوں کا آخری معرکہ ہے۔ دیکھئے نئی نسلیں کیا گل کھلاتی ہیں اور سیاسی میدان میں کیا کیا بھونچال آتے ہیں۔

تازہ ترین