• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمود بشیر ورک کو حال ہی میں پاکستان کا وزیر قانون بنایا گیا ہے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پرانی دوستی کے باعث کہا کہ ’’ہم آپ کے کالم بڑے شوق اور غور سے پڑھتے ہیں‘‘ میں ان کا اشارہ سمجھ گیا، ان سے گزارش کی کہ میں صرف پاکستان کی محبت میں لکھتا ہوں جو لوگ پاکستان کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں، مجھے وہ بہت برے لگتے ہیں اور اگر میرے پاس اختیار ہو تو میں اس پاک دھرتی کو ایسے ناپاک لوگوں سے پاک کردوں۔ اس گفتگو کے جواب میں گوجرانوالہ کا دھیمے مزاج کا جاٹ بولا ’’میرے نزدیک بھی پہلی محبت پاکستان ہی ہے، بے شک کوئی کسی مذہب سے بھی ہو اگر وہ پاکستان کا وفادار ہے تو وہ میرے لئے مقدم ہے اور اگر کوئی مسلمان ہو کر بھی پاکستان سے وفا نہیں کرتا تو میرے لئے وہ شخص بالکل بھی مقدم نہیں، میری محبت کا معیار پاکستان سے محبت ہے، اس دھرتی نے ہمیں عزت دی ہے، اسی سے ہماری شان ہے اور یہی ہمارا مان ہے‘‘۔
محمود بشیر ورک کی باتیں سننے کے بعد مجھے گہری سوچ میں جانا پڑا کہ آخر ن لیگ نے ایسے سچے پاکستانیوں کو کیوں پیچھے رکھا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے ن لیگ نے ایسے لوگوں کو آگے کئے رکھا جنہوں نے ریاست کے کئی اداروں پر تنقید کی، پارٹی کے دیرینہ موقف سے ہٹ کر کچھ اور ہی بیانیہ بنا لیا اگرچہ چوہدری نثار علی خان نے کوشش کی مگر بیانیہ تبدیل نہ ہوسکا، کاش یہ باتیںمیاں نوازشریف سوچتے، انہیں یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اس عظیم پاکستان نے انہیں تین مرتبہ وزیراعظم، دو مرتبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا، صوبائی وزیر خزانہ اور اس سے پہلے مشیر اور پنجاب اسپورٹس بورڈ کا چیئرمین بنایا، انہیں یہ سب کچھ پاکستان نے دیا۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ وہ آج کل بھی غلط مشیروں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں، ایسے لوگ جن کا کوئی اپنا حلقہ انتخاب بھی نہیں۔
اگر آپ نے پاکستان کی قدر پوچھنی ہے تو ذرا بھارتی مسلمانوں سے پوچھیئے جہاں آوارہ ہندو غنڈے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر فریج چیک کرتے ہیں، گوشت کو سونگھتے ہیں اور پھر گھر والوں کی شامت آجاتی ہے، محض گوشت کے نام پر قتل عام کیا جاتا ہے۔ یہ حالات اس پاکستانی سیاستدان سے چیخ چیخ کر پوچھتے ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد کو لکیر کہتا ہے، جس کو دونوں ملکوں کی ثقافت اور حالات ایک جیسے نظر آتے ہیں، اس پاکستانی سیاستدان سے بڑا سادہ سا سوال ہے کہ کیا آپ گائے کو ماتا کہہ سکتے ہیں اور کیا آپ بتوں کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کوئی سچا پاکستانی مسلمان ایسا نہیں کہہ سکتا۔ مجھے دس بارہ سال پہلے ہونے والی ایک ملاقات نہیں بھول رہی، یہ ملاقات حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ سے ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں پروفیسر صاحب فرمانے لگے کہ ’’آپ لوگ خوش قسمت ہیں، آپ پاکستان میں رہتے ہیں، ہمارے دن رات ظلم کے اندھیرے میں گزرتے ہیں، ظلم و جبر میںگزرا ہوا ایک دن ہمیں ایک صدی لگتا ہے، پاکستان کی قدر کیا کرو، پاکستان کی قدر ہم سے پوچھو جو پاکستان کی محبت میں مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، ہم نے پاکستانی پرچم بلند کر رکھا ہے اگرچہ وہاں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج ہے مگر ہمارے حوصلے پست کرنے میں ناکام ہے کیونکہ ہمارے حوصلے پاکستان کی محبت میں بلند ہیں‘‘۔
خواتین و حضرات! مجھے اس بزرگ سید علی گیلانی کے وہ نعرےنہیں بھولتے جو لاکھوں کشمیریوں کے روبرو لگائے جاتے ہیں، بس یہی کہ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ اس طرح کے بہت سے نعرے بھارتی بزدل فوجیوں کے حوصلے روند ڈالتے ہیں۔ ہندوستان میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک دنیا کو بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کی بربریت سے آگاہ کررہی ہیں۔ آج کشمیر کے اندر خواتین سمیت ہر جوان، بوڑھا، بچہ پاکستان کی محبت میں تڑپ رہا ہے۔ اس تڑپ نے بھارتی فوج کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، چند حالیہ رپورٹوں کے مطابق بھارتی فوجی درخواست کرتے ہیں کہ ان کی ڈیوٹی کشمیر میں نہ لگائی جائے۔ بھارتی نوجوان فوج میں شامل ہونے سے کتراتے ہیں، فوج کے سپاہیوں کی ویڈیوز آئے روز سامنے آتی ہیں، وہ بے چارے کھانے کو رو رہے ہوتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کے نعرے اب صرف سری نگر، پلوامہ، اننت ناگ، ڈاچی گام یا پہل گام کی فضائوں ہی میں نہیں لگائے جاتے بلکہ ان نعروں کی گونج نہرو یونیورسٹی دہلی میں بھی سنائی دیتی ہے، یہ نعرے جنوبی ایشیا کے علاوہ برسلز، نیویارک اور لندن سمیت پوری دنیا میں لگائے جاتے ہیں۔
پانچ فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا گیا، پاکستان میںاس روز بھی ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ پرتبصرے جاری رہے۔ آصف علی زرداری نے تبصرہ کیا ’’میاں صاحب! آپ کو اس لئے نکالا کہ آپ دھرتی پر بوجھ بن چکے تھے، آپ نے قرضے لے لے کر ملک کو مقروض بنا دیا تھا‘‘ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ پر سب سے دلچسپ تبصرہ حافظ سعید نے کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ’’نہ آپ کو فوج نے نکالا، نہ عدلیہ نے نکالا، آپ کو میرے رب نے نکالا‘‘۔
آج کل ملک میں سینیٹ الیکشن کا چرچا ہے، سب کو حیران اور پریشان آصف علی زرداری نے کر رکھا ہے جنہوں نے بلوچستان میں آزاد امیدوار میدان میں اتار دیئے ہیں کچھ ایسا ہی وہ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں کریں گے۔ گزشتہ روز ٹی وی پر سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد تازہ بولیاں بتا رہے تھے یہ بولیاں اربوں اور کروڑوں میں ہیں یعنی فاٹا کا سینیٹر ڈیڑھ ارب اور بلوچستان کا سینیٹر پچاس کروڑ کا ہوگا،خیبرپختونخوا کا چالیس کروڑ اور سندھ کا سینیٹر ساٹھ کروڑ کا ہوگا۔ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں امیدوار جو کاغذات نامزدگی جمع کروائیں گے، ان کاغذات میں جائیداد، ٹیکس، اثاثوں کا تذکرہ نہیں ہوگا، نہ ہی بینک اکائونٹس بتائے جائیں گے اور نہ ہی زیر کفالت افراد کا ذکر ہوگا۔ یہ فارم بنانا الیکشن کمیشن کا کام تھا مگر اس کا ٹھیکہ ازخود بنیادوں پر پارلیمنٹ نے لے لیا بقول کنور دلشاد جب سیکرٹری الیکشن کمیشن نے پارلیمانی کمیٹی کے روبرو یہ نکتہ اٹھایا تو انہیں شٹ اپ کال دے دی گئی۔ تازہ ترین فارم مبینہ طور پر اسحٰق ڈار کے کہنے پر تیار کیا گیا ہے۔
چودہ فروری کو بابر بادشاہ کا یوم پیدائش ہے، اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے کچھ لوگوں کو توہین عدالت کے مقدمے میں طلب کر رکھا ہے، پندرہ فروری کو الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کے کچھ لوگوں کو طلب کر رکھا ہے، ایم کیو ایم نے اپنے گیارہ اراکین کے خلاف ریفرنس بھیج رکھا ہے، ان اراکین پر الزام ہے کہ وہ پی ایس پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان اراکین میں ایک رکن ارم عظیم فاروقی بھی ہیں، ارم عظیم فاروقی نے ابھی تک ایم کیو ایم نہیں چھوڑی مگر پتہ نہیں کیوں ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک ایسی رکن اسمبلی کے خلاف بھی ریفرنس بھیج دیا جس نے پی ایس پی جوائن بھی نہیں کی، ارم عظیم فاروقی کے دو قصور ہیں، ان کا پہلا قصور یہ ہے کہ جب ایم کیو ایم کے لوگوں نے پاکستان کے خلاف آواز بلند کی تو سب سے پہلے ارم عظیم فاروقی نے کہا کہ ’’میرا سب کچھ پاکستان ہے، میری شناخت میرا وطن پاکستان ہے، پاکستان پر جان بھی قربان ہے‘‘ ارم عظیم فاروقی کا دوسرا قصور یہ ہے کہ یہ خاتون انتہائی دیانتدار ہے، بدقسمتی سے ہماری سیاست میں دیانتدار لوگوں کو پیچھے دھکیلا جاتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ سینیٹ کے نئے کاغذات نامزدگی کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ مسترد کردے، فی الحال تو ن لیگ کو نئے سینیٹر کے طور پر مشاہد حسین سید کی مبارک ہو، ہوسکتا ہے میاں صاحب اس راستے سے اے این پی کے ووٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں کیونکہ مشاہد حسین سید کے صاحبزادے مصطفیٰ سید کی شادی اے این پی کے افراسیاب خٹک کی صاحبزادی سے ہو چکی ہے، ایک دوسرے سے ووٹ ضرور لیں مگر اس سب کچھ کے درمیان پاکستان سے محبت سلامت رہنی چاہئے۔ بقول وجیہ ثانی ؎
ہے محبت وہ معجزہ ثانی
یاد جس کی ہری سی رہتی ہے.

تازہ ترین