• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسٹ انڈیا کی شکل میں جب ہندوستان میں گوروں نے قبضہ کرلیا اور پھر اپنے اقتدار کے دوران برٹش راج کو نافذ کیاجانے لگا تو برٹش گوروں نے جہاں اپنے قوانین لاگو کرنے شروع کئے وہاں ہندوستان کے لوگوں کو سامنے رکھ کر اس میں ترامیم بھی کیں۔ہندوستان میں تعلیمی نظام کے حوالے سے پالیسی بناتے ہوئے جب گوروں نے برطانیہ میں اپنے ماہرین سے رابطہ کیا تو انہوںنے اپنے تعلیمی نظام اور پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے کہاکہ ہندوستان کی ضرورت کے مطابق فلاں فلاں مضامین پڑھائے جائیں۔ایسا امتحانی نظام نافذ کیاجائے اور جو بھی سومیں سے 65 نمبر لے اسے پاس قرار دیاجائے ۔لیکن ہندوستان میں موجو دگوروں نے اپنے پالیسی سازوں کو دوبارہ خط لکھا کہ ہندوستان کے لوگوں کا وہ آئی کیو لیول نہیں جو برٹش لوگوںکاہے۔بلکہ ہندوستانی لوگ ذہنی صلاحیتوں کے حوالے سے گوروں سے آدھے ہیں۔اس لیے ان لوگوں کے لیے سومیں سے پاسنگ مارکس65 رکھنا زیادتی ہے۔تو برطانیہ کے پالیسی سازوں نے ہندوستان میں موجود اپنے ہم وطن حکمرانوں کی سفارشات کو مد نظررکھتے ہوئے کہاکہ ہندوستان کے طالب علموںکے لئے پاسنگ مارکس65 کی بجائے آدھے کردیئے جائیں یعنی ساڑھے بتیس(32/1/2) نمبر حاصل کرنے والا پاس ہوگا۔ لیکن چند ہی سالوںکے بعد ہندوستان کے حکمران گوروں کو ساڑھے بتیس(32/1/2) نمبروںکی جمع تفریق کی پیش آنے والی مشکلات کا احساس ہوا توانہوںنے پھر برطانیہ راج کو خط تحریر کرتے ہوئے ساڑھے بتیس کے عدد کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کیا تو وہاںکے پالیسی سازوں نے اس مشکل کو سمجھتے ہوئے خط کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ ساڑھے بتیس(32/1/2) کی مشکلات سے نکلنے کے لیے اسے ساڑھے بتیس کی بجائے تینتس(33) کردیا۔ یعنی پاسنگ مارکس 33 ہوگئے۔ پاسنگ مارکس 33 کرنے کو اب ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا لیکن ہمارے پاسنگ مارکس آج بھی 33 ہی ہیں۔ ا انار ،ب بکری، پ پنکھا، ت تختی اور ٹ ٹوپی سے اردو اور اے اپیل، بی بے بی، سی کیٹ، ڈی ڈاگ میں بھی صرف اتنی ہی تبدیلی آئی ہے کہ ب بکری کی جگہ ب بابا اور انگلش میں جی گرلز کی جگہ جی گٹار ہوگیا ہے۔ ٹاٹ کی جگہ بینچ اور اب ماڈرن کرسیوں نے لے لی ہے ۔شائد پرائیویٹ تعلیمی اداروں اورکچھ بڑی درس گاہوں میں بلیک بورڈز کی جگہ وائٹ بورڈز یا ایل سی ڈی نے لے لی ہے۔ اور یقیناً کچھ تعلیمی معیار بھی بلند ہوا ہے۔ لیکن آج بھی رٹوں طوطوں کی بھرمارہے چھوٹے بڑے شہروںکی دیواروں،کھمبوںاور دکانوں کے بورڈز پرآج بھی امتحانات میں پاس ہونے کے لیے گارنٹی شدہ گائیڈز اور گیس پیپرز کے اشتہارات چسپاں یا آویزاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم معاشرہ نہیں بنارہے ۔ہمیں آج تک پیدل روڈ کراس کرنا نہیںآیا۔ہم گاڑی کو ریڑھنے یا چلانے کو ڈرائیونگ سمجھ لیا ہے۔ دھکے مارکر آگے نکلنے کو تیز رفتاری،میرٹ کا خون کرکے آگے بڑھنے کو ترقی،گھر کی گندگی کو باہر گلی میں پھینک کر،گاڑی سے خالی شاپر اور ڈبے سڑکوں پر پھینکنے کو صفائی سمجھ لیا گیا ہے۔ ہم نے تعلیم تو دی ہے تربیت نہیں کرسکے۔چاہے یہ تر بیت گھر سے ہو یا تعلیمی اداروں سے ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک صحیح معنوںمیں ترقی کر توکراچی کے کچرے کی صفائی کو اداروں کے ذمے لگانے کے ساتھ ساتھ خود بھی گندگی کو پھیلانے سے گریز کرنا ہوگا۔ شاہرائوں پر نظم وضبط سے ٹریفک کو دیکھنے کیلئے صرف ٹریفک پولیس کو ذمہ دار قراردینے کی بجائے ہمیں خود گاڑیاں اچھے انداز میں اور ٹریفک اصولوں کے مطابق چلانا ہونگی۔کرپشن کو اپنا حق سمجھنے کی بجائے بے ایمانی سمجھنا ہوگا ،یہ گلہ کرنے کی بجائے کہ ملک نے ہمیں کیا دیا بلکہ یہ سعی کرنا ہوگی کہ ہم نے ملک کو کیا دیا۔لیکن اس سے پہلے قوم تشکیل دینا ہوگی۔ اور یہ قوم تشکیل دینے کے لئے ہمیں اپنی نئی نسل کو بچپن سے یعنی چھوٹی کلاس سے تربیت دیناہوگی۔خالی پرائیویٹ اسکولوںمیں نہیںبلکہ ہر سرکاری اسکول میں ا انار، ب بکری، پ پنکھا، ت تختی اور ٹ ٹوپی یا اے اپیل ، بی بے بی، اور سی کیٹ کی بجائے اپنے بچوں کو تربیت دیناہوگی کہ فٹ پاتھ پر کیسے چلنا ہے گاڑی کیسے چلانی ہے، مارکیٹوں میں کس طرح بی ہیو کرنا ہے ایمانداری کیا ہوتی ہے۔نظم وضبط کیا ہوتا ہے۔شاہراہ کو عقل سے کراس کرنا ہے یا بھاگ کے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ کم ازکم ہر صوبے کے لیے ،آزاد کشمیر اور فاٹا کے لیے پچاس پچاس ہزار ایسے رضا کارٹیچر بھرتی کریں جوکم ازکم ایک سال ان بچوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ ایک بہترین معاشرے کے بہترین شہر ی بن سکیں۔کیو نکہ ہمیں 33 نمبر والے پا س اور نہ ہی 100 بٹا 100 والے اے گریڈ بلکہ اچھے شہری اور معاشرے کے بہتر ین لو گ چا ہئیں۔

تازہ ترین