• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2013 میں جب مسلم لیگ (ن) نے حکومت سنبھالی تو کراچی کے حالات انتہائی خراب تھے، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ زوروں پر تھی، شہر پر لینڈ مافیا اور دہشت گردوں کا راج تھا، منٹوں میں شہر کو بند کرادیا جاتا تھا، ہر شام کراچی کے شہری ایک دوسرے سے اسکور دریافت کیا کرتے تھے، اسکور سے مراد اُس دن ہونے والی درجنوں ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشیں ہوتی تھیں جو شہر کے مختلف علاقوں سے ملتی تھیں جبکہ غیر ملکی خریدار کراچی آنے کے بجائے دبئی میں میٹنگز رکھنے پر اصرار کرتے تھے۔ ایسی صورتحال میں سینکڑوں بزنس مین اپنا کاروبار اور گھر فروخت کرکے فیملی سمیت دبئی اور مختلف ممالک منتقل ہوچکے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ان حالات میں کراچی سے 4 ارب ڈالر سے زائد دبئی منتقل ہوئے۔ وزیراعظم نواز شریف حکومت سنبھالنے کے بعد جب پہلی بار کراچی تشریف لائے تو گورنر ہائوس کراچی میں منعقدہ میٹنگ میں مجھ سمیت کئی بزنس مینوں نے اُن سے شہر میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی شکایتیں کیں۔ میٹنگ کے شرکاء کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ’’میاں صاحب!کسی طرح ہمیں اس عذاب سے نجات دلائیں اور کراچی میں امن و امان قائم کریں۔‘‘ وزیراعظم نواز شریف نے ہمیں یقین دلایا کہ کراچی کا امن میری پہلی ترجیح ہے۔ پھر سب نے دیکھا کہ نواز شریف نے اپنے وعدے پر عمل کرکے دکھایا اور کراچی آپریشن کے ذریعے شہر میں امن و امان قائم ہوا، رونقیں واپس لوٹ آئیں اور آج کراچی کے شہری بلاخوف و خطر سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت چاہتی تو کراچی میں امن و امان کا سہرا اپنے سر لے کر یہاں اپنی سیاست چمکاسکتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کی سندھ بالخصوص کراچی میں سرگرم نہ ہونے کے باعث یہ تاثر ابھرا کہ سیاسی میدان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے حوالے کردیا گیا ہے مگر گزشتہ دنوں میاں نواز شریف کے دورہ کراچی سے اِس تاثر کی نفی ہوئی۔
گزشتہ سال جب میں نے میاں نواز شریف سے ملاقات میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تو میاں صاحب کو کراچی آنے اور بزنس مینوں سے میٹنگ کی دعوت دی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ مصروفیت کے باوجود گزشتہ دنوں میاں نواز شریف کراچی تشریف لائے اور بزنس مینوں سے انٹریکشن کیلئے ایک شام اُن کے ساتھ گزاری جس کا اہتمام میں نے مقامی ہوٹل میں کیا تھا۔ تقریب میں شرکت کیلئے میاں نواز شریف، وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق، سینیٹر پرویز رشید، وزیراعظم کے پولیٹکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی کے ہمراہ خصوصی طیارے میں کراچی تشریف لائے تھے جبکہ تقریب میں گورنر سندھ محمد زبیر، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، مشاہد اللہ، ماروی میمن، عابد شیر علی، مسلم لیگ (ن) سندھ کی قیادت شاہ محمد شاہ اور بابو جتوئی نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں 300 سے زائد معروف صنعتکاروں، بزنس مینوں، فیڈریشن اور چیمبرز کے نمائندوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ میاں نواز شریف بزنس کمیونٹی میں مقبول ہیں۔ اس موقع پر میں نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں نواز شریف اور وفاقی وزراء کا کراچی آمد پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ نواز شریف کے دور حکومت میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور ملکی معیشت نے تیزی سے ترقی کی، وہ صنعتیں جو لوڈشیڈنگ کے باعث 12,12 گھنٹے بند رہتی تھیں، آج 24 گھنٹے رواں دواں ہیں۔ کراچی میں امن و امان اور رونقوں کی بحالی کا سہرا بھی نواز شریف کے سر جاتا ہے، مخالفین کراچی میں امن و امان کا ذمہ دار رینجرز کو قرار دیتے ہیں حالانکہ رینجرز پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کے دور میں بھی تھی تو اُس وقت انہوں نے امن و امان کیلئے کوئی کارنامہ انجام کیوں نہ دیا۔ میں نے شرکاء کو بتایا کہ نواز شریف حکومت کی مثبت پالیسیوں سے اسٹاک ایکسچینج جو کسی بھی ملک کی معیشت کا بیرومیٹر تصور کیا جاتا ہے، تاریخی سطح 53,000 انڈیکس پر پہنچ گیا تھا۔ ایسے میں بلومبرگ یہ پیش گوئی کررہا تھا کہ 2025ء تک پاکستانی معیشت کا شمار دنیا کی 25 بڑی معیشتوں میں ہونے لگے گا جبکہ انٹرنیشنل کریڈٹ ایجنسیوں، موڈیز اور S&P کی پاکستان کیلئے کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آرہی تھی، اسی طرح مغربی میڈیا نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ تیزی سے اوپر آرہا ہے مگر ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ جب بھی پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کردیا جاتا ہے اور تیزی سے ترقی کرتی معیشت بے یقینی کی صورتحال کے باعث زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہی کچھ نواز شریف حکومت کے ساتھ ہوا، نواز شریف کو عہدے سے معزول کئے جانے کے بعد ملک میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوئی اور اسٹاک ایکسچینج 53,000 انڈیکس کی سطح سے گرکر 38,000 انڈیکس کی نچلی سطح پر آگیا۔ ایسی صورتحال میں عالمی مالیاتی اداروں نے اعتراف کیا کہ نواز شریف کے جانے سے پاکستان کی اقتصادی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں (ن) لیگ کے ساڑھے چار سالہ دور میں ہونے والی اچیومنٹ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ملکی انفراسٹرکچر میں جو بہتری نواز شریف حکومت میں آئی، اُس کی مثال ماضی کی حکومتوں میں نہیں ملتی، کراچی میں امن و امان کے علاوہ 50ارب روپے سے لیاری ایکسپریس وے، گرین لائن بس سروس، K-4واٹر پروجیکٹ اور کراچی حیدرآباد موٹر وے نواز شریف حکومت کے کراچی کو دیئے گئے تحفے ہیں۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے کراچی ڈویلپمنٹ اسکیم کیلئے 25ارب روپے بھی مختص کئے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) حکومت بزنس فرینڈلی کہلاتی ہے اور اسی لئے بزنس کمیونٹی نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں (ن) لیگ حکومت کی کارکردگی خصوصاً امن و امان کی صورتحال میں بہتری، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، اونچی معاشی ترقی، سی پیک منصوبے، گرین لائن بس پروجیکٹ، لیاری ایکسپریس وے، سندھ میں وفاقی حکومت کے پروجیکٹس اور انفراسٹرکچر کے دیگر منصوبے جو پاکستان کے شہروں اور صوبوں کو آپس میں ملاتے ہیں، کے بارے میں شرکاء کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی بدنصیبی ہے کہ جب بھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو کچھ قوتیں ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کردیتی ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ ’’میں جب بھی کراچی آتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، 2018ء میں جیسا کراچی ہونا چاہئے تھا، ویسا نہیں ہے، کراچی کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے، لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، میں کراچی والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ لاہور جاکر دیکھیں اور لاہور کا کراچی سے موازنہ کریں، مجھے لاہور کی طرح کراچی بھی عزیز ہے لیکن بدقسمتی سے لاہور کراچی سے بازی لے گیا۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’’صوبہ سندھ میں غربت اور بیروزگاری عروج پر ہے، لوگ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں، اللہ نے موقع دیا تو کراچی کو ایسا شہر بنادیں گے کہ دنیا دیکھے گی اور کراچی کے ساتھ پورا سندھ بدلیں گے‘‘۔ اس موقع پر بزنس مینوں کی بڑی تعداد نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی جبکہ کچھ بزنس مینوں نے میاں نواز شریف اور اُن کی پارٹی کو اپنی حمایت کا مکمل یقین دلایا۔ کراچی میں بزنس مینوں کی تقریب کے علاوہ نواز شریف نے ’’پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں بھی شرکت کی جس کا اہتمام مسلم لیگ (ن) سندھ کے جنرل سیکرٹری شاہ محمد شاہ نے کیا تھا۔ تقریب میں سول سوسائٹی کے ہزاروں افراد شریک تھے جبکہ نواز شریف کے دورہ کراچی کے دوران وکلاء کی جانب سے بھی ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد نے اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کے دور میں پاکستان میں جتنے ترقیاتی کام ہوئے، انفراسٹرکچر میں بہتری آئی، سڑکوں کا جال بچھا اور عوام کی زندگی میں بہتری آئی، وہ کسی دور میں نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ قوتیں نہیں چاہتی تھیں کہ نواز شریف ان کاموں کی تکمیل کے بعد اتنے مضبوط ہوجائیں کہ اُنہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے، اسی لئے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا اور پانامہ کے نام پر کیا گیا احتساب اقامہ پر ختم ہوا مگر اس کے باوجود لوگوں کے دلوں سے نواز شریف کی محبت کو ختم نہ کیا جاسکا۔ کراچی میں امن و امان کا سہرا یقینا نواز شریف اور (ن) لیگ حکومت کو جاتا ہے، پاکستان کا ایٹمی دھماکہ اور سی پیک منصوبہ نواز شریف کے وہ بڑے کارنامے ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں جن کی بدولت نواز شریف کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔
کچھ قوتوں کی یہ خام خیالی تھی کہ عہدے سے معزول کئے جانے کے بعد نواز شریف سیاسی منظر نامے سے غائب ہوجائیں گے اور عوام اُنہیں فراموش کردیں گے مگر معزول کئے جانے کے بعد نواز شریف کی مقبولیت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ کے شاہی خاندان میں شہزادی ڈیانا سے جب ’’پرنسس‘‘ کا اعزاز واپس لے لیا گیا تو وہ عوام کے دلوں پر راج کرنے کی وجہ سے ’’پیپلز پرنسس (People's Princess)‘‘ یعنی عوام کی شہزادی کہلائیں۔ گوکہ نواز شریف اب وزیراعظم پاکستان نہیں رہے مگر وہ اب بھی عوام کے دلوں پر راج کررہے ہیں جس کا اندازہ اُن کے حالیہ جلسوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک عوام کے دلوں پر راج کرنے والا وزیراعظم (People's Prime Minister) حقیقی وزیراعظم سے بڑا منصب ہے۔

تازہ ترین