• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دفعہ پھر پانچ فروری آیا اور آکر گزر گیا۔ سیمینارز ہوئے، تقاریر ہوئیں ،دعوتیں ہوئیں ، مظاہرے ہوئے ، جلوس نکلے اور دن ختم ہوگیا ، لیکن کشمیریوں کی تکالیف کم نہ ہوسکیں ۔اسی طرح بھارتی فوجی معصوم کشمیریوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنارہے ہیںجس طرح وہ گزشتہ ستر برسوں سے کرتے آرہے ہیں شاید ایسے دنوں میں جب کشمیر کیلئے دنیا بھر میں آواز بلند ہوتی ہو اس دن کشمیریوں کو بھارتی سورمائوں کا زیادہ ظلم و ستم سہنا پڑتا ہو لیکن یقین جانیے ہم کشمیری بھائیوں پر ہونے والے مظالم ، ان کو بھارت کی جانب سے محکوم رکھے جانے اور بھارت کی جانب سے ان کی آزادی کے حق کو دبائے جانے کے ظلم کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں ۔آج ہم کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم کیخلاف جو بھی آواز اٹھارہے ہیں وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے سامنے اٹھارہے ہیں ہماری بہت ہی کم آواز بین الاقوامی سطح پر پہنچ پاتی ہے اور عالمی برادری پوری طرح سے کشمیر کے مسئلے کو سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے ۔ہم آج بھی ان پرانے اور دقیانوسی خیالات پر قائم ہیں کہ جب تک بھارت کشمیریوں کو آزادی نہیں دیتا بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں ہونے چاہئیں ،نہ تجارت ہونی چاہیے اور نہ ہی سرمایہ کاری ہونی چاہیے ۔لیکن عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلے یعنی مسئلہ فلسطین پر نظر ڈالی جائے تو حیرانی ہوگی کہ کون کون سے عرب اور مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات قائم ہیں ۔صرف یہی نہیں جاپان اور چین کے تاریخی طور پر شدید سیاسی اور زمینی تنازعات ہیں ان دونوں ممالک کے درمیان بھی پاکستان اور بھارت جیسی نفرت ہے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا جذبہ بھی ہے لیکن اسکے باوجود جاپان اور چین کے درمیان دوطرفہ سالانہ تجارت کا حجم تین سو ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جس سے دونوں ممالک کے کروڑوں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ صرف چین اور جاپان ہی نہیں بلکہ بھارت اور چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ۔ان دونوں ممالک کے درمیان دو جنگیں لڑی جاچکی ہیں ، شدید سرحدی کشیدگی بھی ہے لیکن پھر بھی دونوںممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوچکا ہے جبکہ بھارت میں بننے والی فلمیں چین میں اربوں روپے کمارہی ہیں۔ ان ممالک کے آپسی تعلقات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی اختلافات اور سرحدی تنازعات اپنی جگہ لیکن عوام کی فلاح وبہبود اور ترقی اور روزگار کیلئے اختلافات اور تنازعات کو علیحدہ رکھ کر تجارت کی جاسکتی ہے ۔پاکستان اور بھارت یہ فارمولا آپس میں اپلائی نہیں کرتے ۔جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو اس مسئلے کے حل کیلئے کوششوں کی بات ہے تو اس کیلئے اب زمانہ بدل گیا ہے ہمیں دنیا کو پہلے یہ بتانا اور یقین دلانا ہوگا کہ کشمیری دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں ان کیساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ہورہی ہے اور ان کو آزادی ملنی چاہیے اور آزاد ہوکر پاکستان کے ساتھ ان کا الحاق بھی ہونا چاہئے۔دراصل یہ بہت مشکل عمل ہے کیونکہ بھارت بہت عرصے سے اپنا موقف عالمی سطح پر بہتر طریقے سے پہنچا رہا ہے۔ اپنی بہتر معیشت کے ذریعے ممالک سے تعلقات اچھےکررکھے ہیں ۔بھارت میں دہشت گردی بھی ہمارے مقابلے میں کم ہے اور جو ہے اس کا ذمہ دار بھی وہ ہمیں ہی ٹھہرانے کا کامیاب پروپیگنڈہ کررہا ہے لہٰذا ہمیں بھی اب جدید طرز کے طریقے اپنانے ہونگے تاکہ ہماری بات عالمی برادری سنے ، اس پر یقین کرے اور پھر مسئلہ کشمیر کو ہماری اور کشمیر ی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے میں مدد بھی فراہم کرسکے۔ سب سے اہم کام معاشی ترقی ہے حقیقت یہ ہے کہ معاشی طور پر کمزور ، قرضہ مانگنے والوں کی بات نہیں سنی جاتی اس لئے معاشی ترقی انتہائی ضروری ہے جبکہ دوسری اہم چیز جسے ہمیں قومی سطح پر حاصل کرنا ہے وہ اپنے عوام کو سو فیصد تعلیم یافتہ بنانا ہے جس کیلئے حکومت اور عوام کو مشترکہ کوششیں کرنا ہونگی ۔اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کومسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ذمہ داری ادا کرنی ہے اس کیلئے ہمیں بھارت کی چالوں سے سبق سیکھنا ہوگا ۔حالیہ دنوں بھارت نے سوئٹزر لینڈ میں جس طرح مقامی بسوں پر آزاد بلوچستان کا نعرہ لکھوایا اور وہاں کے عوام اور عالمی میڈیا میں پروپیگنڈاکرنے کی کوشش کی ،اسی طرح جو پاکستانی جس ملک میں رہائش پذیر ہے اسے چاہئے کہ وہاں یہی طریقہ اختیار کرے کمیونٹی سطح پر فنڈز جمع کیے جائیں وہاں کے بہترین مقامات پر ہفتہ وار یا ماہانہ کی بنیاد پر اپنے اپنے ممالک کے بڑے شہروں کے مرکز میں ہورڈنگ بورڈز کرائے پرلئے جائیں اور وہاں فری کشمیر اور کشمیر کا نقشہ پاکستان کیساتھ ملا کر شائع کرایا جائے، بھارتی ظلم و بربریت کی تصاویر لگائی جائیں۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہر ملک کی قومی زبان میں ویب سائٹس تیار کی جائیں اور ان کی پبلیسٹی کی جائے ، واٹس ایپ اور ایس ایم ایس گروپ بنائیں جس میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے ممالک اور وہاں کے عوام میں مسئلہ کشمیر اجاگر ہو انھیں کشمیر کے مسئلے اور اسکے حل کے بارے میں معلومات حاصل ہوں اس کام کیلئے دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں کو بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا ۔اس وقت بھارتی سفارتخانے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی فیکٹریوں کے طورپر کام کررہے ہیں ،پاکستان کا کوئی بھی اہم وزیر کسی ملک کے دورے پر جاتا ہے اور کسی بھی بڑے ایونٹ میں جہاں میڈیا جمع ہوتا ہے وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی اور سفارتخانے کی طرف سے پلانٹ کیے گئے دو نمبر صحافی اور این جی اوز جو بھارت سے فنڈز لیتے ہیں وہ تقریب میں آکر پاکستانی وزیر سے سخت اور مخالف سوال کرتے ہیں جس کے بعد اگلے روز عالمی میڈیا میں پاکستان مخالف خبریں تفصیل کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ یہ کام پاکستانی سفارتخانوں یا کمیونٹی تنظیموں کوکرنا چاہیے کہ جس ملک میں بھی بھارتی وزیر اعظم یا اہم وزیر تشریف لائے وہاں پاکستانی یا کشمیر ی صحافی یا این جی اوز کے نمائندوں کو پہنچایا جائے اور جو بھارتی حکام سے کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے حوالے سے سوال کرسکیں تاکہ عالمی میڈیا میں بھارت کا اصل چہرہ سامنے۔ اب وقت آگیا ہے کہ نہ صرف اوورسیز پاکستانی کشمیری بھائیوں کی آزادی کےلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں بلکہ پاکستانی سفارتخانوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں اداکرنا ہونگی۔ جاپان میں گزشتہ روز کشمیر یکجہتی فورم اور پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے زیر اہتمام کشمیر کے حوالے سے سیمینار اور پھر بھارتی سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کیا جاچکا ہے جہاں ن لیگ جاپان کے صدر ایک بارپھر بھارتی سفارتکار سے دست و گریباں ہوتے ہوتے رہ گئے ۔وہ بھارتی سفارتکار کی جانب سے مظاہرین کیخلاف نازیبا الفاظ پر جذبات پر قابو نہ رکھ سکے تاہم اس دفعہ جاپانی پولیس نے ٹوکیو میں اسلام آباد جیسا واقعہ ہونے سے بچالیا اور اعوان صاحب بھی جاپان میں اپنے اوپر ہونیوالے کسی بھی ممکنہ مقدمے سے بچ گئے ۔کالم کا اختتام اس دعا کیساتھ کہ اللہ تعالیٰ کشمیری بھائیوں کو جلد از جلد بھارت سے آزادی دلائے اور’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کا پاکستانی اور کشمیری قوم کا خواب پورا ہو ۔

تازہ ترین