چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان میں بیٹھا ایک شخص بیرون ملک ڈگریاں بیچ رہا تھا، ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔ اگر جعلی ڈگریوں کی خبر میں صداقت ہے تو کوئی نہیں بچ پائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکسدیئے کہ کسی کو چُھوٹ نہیں ، سب کا نام ای سی ایل میں ڈالیں گے، ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا پاکستان میں بیٹھ کر 330 یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس بنائی گئیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے کہا ہمیں بتائیں ایگزیکٹ کا کیا معاملہ ہے، پہلے بھی شور اٹھا تھا، دفاتر کو سیل کرکے دستاویزست قبضے میں لی گئیں، اب یہ معاملہ دوبارہ نمایاں ہو رہا ہے، اگر یہ درست ہے تو بتا دیں، ملک کی بدنامی ہو رہی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا اگر جعلی ڈگریوں کی خبر میں صداقت ہے تو کوئی نہیں بچ پائے گا، ڈی جی ایف آئی اے بشیرمیمن نے عدالت کو بتایا کہ 15مئی 2015کوایگزیکٹ سے متعلق خبر شائع ہوئی، پشاور میں جعلی ڈگری والے پروفیسر پکڑے گئے، ایگزیکٹ کاہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے، ایگزیکٹ کے ایک فلور پر کام کرنے والوں کو دوسرے فلور سے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا تھا۔
جس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا ملکی وقار بہت بڑا بنیادی حق ہے، پاکستان کی عزت بچانے کے لیے جانتے ہیں کیا کرنا ہے، مجھےملزمان کے نام لکھوا دیں۔ چیف جسٹس نے کہا میرا دل دھڑک رہاہے، پتہ ہے کیوں؟ کہیں عامر لیاقت نے ان سے ڈگری نہ لی ہو؟ اگر عامر لیاقت نے ڈگری لی ہے تو چھوڑوں گا نہیں۔
ڈی جی ایف آئی اے نے کہا 2007ء میں ڈگری لینے والوں میں عامر لیاقت کا نام بھی ہےالبتہ کہہ نہیں سکتا ڈگری ملی یا نہیں، لیکن نام موجود ہے،
چیف جسٹس نے عدالت میں موجود عامر لیاقت کی طرف دیکھ کر کہا یہ کس طرح سے بیٹھے ہیں آپ کورٹ کا ایک احترام ہوتا ہے، آپ کھڑے ہوجائیں، کہا یہ ٹی وی چینل نہیں ہے، عامر لیاقت نے اپنی حرکت پر عدالت سے معافی مانگ لی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نےکہا ایک آدمی یہاں سے بیٹھ کر بیرون ملک ڈگریاں بیچ رہا تھا، پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ نے کوئی ایکشن نہیں لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل ہم اپنی غلطیوں کی نشاندہی کررہے ہیں، کیا ملک کی بدنامی پر از خود نوٹس لینا بھی غلطی ہے؟ اس غلطی کو بھی ہماری فہرست میں ڈال دیں، عدالت نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کے تمام ملزمان کوطلب کرتے ہوئے مزید سماعت 9 فروری تک ملتوی کر دی۔
اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل سے متعلق خبروں پر ازخود نوٹس لے کر ایف آئی اے کو تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا، تاہم ایف آئی اے کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ تضادات سے بھر پور نظر آئی۔
ایف آئی اے نے تسلیم کیا تھا کہ 2 لاکھ 15 ہزار، 507 طالب علموں کو جعلی ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ بیچے گئے ، لیکن جو رپورٹ جمع کرائی گئی اس میں ملزمان کو بچ نکلنے کا راستہ فراہم کیا گیا۔
ایف آئی اے نے یہ تو بتا دیا کہ 4 ہزار متاثرین سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی آڈیو ریکارڈنگز کو اپنی رپورٹ میں شامل نہ کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی سفارت خانے کے لیگل اتاشی کو ایک خط میں ایگزٹ کے شئیر ہولڈرز اور ڈائریکٹرز سمیت افسران کی معلومات مانگی گئیں، مگر کوئی جواب نہیں آیا، حقیقت یہ ہے کہ امریکی سفارت خانے نے8 فروری 2016کو خط میں ایگزٹ سے منسلک کمپنیز اور سوالوں کے تفصیل سے جواب دیے تھے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ میں امریکا میں ایگزٹ کے خلاف چلنے والے مقدمات کا تذکرہ بھی نہیں کیا گیا، ایک مقدمے میں امریکا میں ایگزٹ کا ملازم سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا، دوسرا کیس نام نہاد بیل فورڈ یونی ورسٹی کا تھا جوایگزیکٹ امریکی عدالت میں ہار گئی تھی۔
مقدمات کی تفصیل امریکی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر موجود ہے، ایف آئی اے عدالت میں ایگزٹ کے بڑے منی لانڈرنگ کیس کی تفصیلات بھی پیش کرنے میں ناکام رہی جس میں حوالہ اور دوسرے غیر قانونی ذرائع سے پیسہ پاکستان سے باہر اور باہر سے پاکستان منتقل کیا گیا۔
بدنام زمانہ ڈگری اسکینڈل میں ملوث ایگزیکٹ کا پول پہلے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کھولا تھا، پھر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سمیت کئی عالمی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے بھونچال آگیا۔