• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت کو کہا گیا کہ فحاشی و عریانی کی تعریف کریں مگر حکومتی ذمہ دار مذاق بلکہ تضحیک کرنے پر اتر آئے۔ 27 اگست کو اسلام آباد میں پیمرا کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں چند ایک شرکا نے مطالبہ کیا تھا کہ فحاشی کے مسئلہ پر غوروخوض کے لیے خواتین کو بھی مدعو کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ پاکستانی خواتین کی نمائندگی ضروری تھی مگر ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ حکومتی ذمہ دار کیا کر رہے ہیں۔ 13 ستمبر کو کراچی میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کے نام دینے سے متعلقہ حکام ہچکچاہٹ کا شکار ہیں مگر وزارت اطلاعات کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق کراچی کے اجلاس کے لیے ایک شرارت کی جا رہی ہے۔ میرے استفسار پر کہ شرارت کیا ہے تو بتایا گیا کہ فحاشی کی حدوں کا تعین کرنے کے لیے(اگر تمام نہیں تو اکثر) ایسی خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے جوسیکولر اور لبرل طبقہ کی نمائندہ توہو سکتی ہیں لیکن اپنے خیالات، سوچ اور فلسفہ کی بنیاد پر پاکستان کی 51فیصد عورتوں کی نمائندگی کرنے کی اہل نہیں۔ میرے استفسار پر مجھ سے کہا گیا کہ کیا ہو اگرپاکستان کی عورتوں کی نمائندگی کرنے کے لئے ماروی سرمد، نائلہ جوزف ڈیال، شیما کرمانی، فرزانہ باری، ثمینہ پیر زادہ، زیبا حسین، عتیقہ اوڈھو اور کشور ناہید کو کراچی کے اجلاس کے لیے مدعو کیا گیا۔ میں نے جواباً کہامذاق مت کریں جس پر مجھے بتایا گیا کہ تین اور خواتین جن میں عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی اور فوزیہ سعید شامل ہیں کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر اپنی مصروفیت کی بنا پر انہوں نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کی۔ اسے شرارت کہیں یا سازش (جس کا شاید مدعو کی گئی خواتین کو بھی علم نہ ہو) لیکن سچ پوچھیں تو جیسے ہی میں نے یہ نام سنے مجھے حکومتی ذمہ داروں کا سارا کھیل سمجھ میں آ گیا اور یہ بھی کہ نام کیوں چھپائے جا رہے تھے۔ بات صاف ہے کہ حکومتی ذمہ دار فحاشی اور انڈین کلچر کو پھیلانے کے کھیل میں شامل ہیں اور وہ اس مسئلہ کو حل نہیں ہونے دینا چاہتے بلکہ گند پھیلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
چونکہ میں بھی کراچی کے اجلاس کے لیے مدعو تھا مگر میر ے لیے اس مذاق کو برداشت کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے ایک بڑے ذمہ دار کو لکھ بھیجا کہ میں احتجاجاً اب اس کارروائی کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ایک ایسی کارروائی جو سنجیدہ نہ ہو۔ مجھے مدعو کی گئی خواتین سے نہ کوئی ذاتی عناد ہے نہ دشمنی، مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ خواتین پاکستان کی عورتوں کی نمائندہ کیسے ہو گئیں۔ میں سب کے بارے میں نہیں کہتا مگر اکثر کا اس سوچ سے تعلق ہے جو مغرب زدہ، سیکولر اور” روشن خیال“ تو کہی جا سکتی ہیں مگر اسلامی نہیں ہو سکتیں۔ ایک صاحبہ تو ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہیں، تو دوسری پاکستان کی نامور رقاصہ اور رقص کی تربیت بھی دیتی ہیں جبکہ ایک اور صاحبہ نے میرے ساتھ ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران یہ بات کہی کہ رقص پاکستان میں رہنے والوں کے کلچر کا حصہ ہے۔ ان میں سے ایک خاتون شراب لے جاتے ائیرپورٹ پر پکڑی گئیں۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان تمام خواتین کو کسی بھی دوسرے شخص کی طرح اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے مگر یہاں مذاق یہ ہو رہا ہے کہ ان کو پاکستان کی عورتوں کی نمائندہ ہونے کے ناطے اجلاس میں بلایا جا رہا ہے تا کہ وہ فحاشی کے مسئلہ پر بات کر سکیں۔ اگر پاکستان کی عورتوں کی نمائندہ خواتین کو بلانا ہی تھا اور وہ بھی فحاشی جیسے مسئلہ پر گفتگو کے لیے تو پھر ایک مخصوص سیکولر سوچ کی بجائے فریال ٹالپر، مہرین انور راجہ، یاسمین رحمان، مریم نواز، نصرت پرویز اشرف، فوزیہ قصوری، جسٹس ناصرہ اقبال، غزالہ سعد رفیق، شاہینہ وقار، ڈاکٹر فرحت ہاشمی، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، عامرہ احسان، طیبہ خانم بخاری، ثمینہ خاور حیات، سیمل کامران، عائشہ انس، فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین اور بانو قدسیہ جیسی مختلف طبقہٴ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین حکومتی ذمہ داروں کو کیوں نظر نہیں آئیں۔ جن کو بلایا گیا ان کی اکثریت کیا آئین پاکستان کی اسلامی شقوں اور نظریہٴ پاکستان سے متفق ہے؟ کیا وہ قادیانیوں کو غیر مسلم تسلیم کرتی ہیں؟ قانون ناموس رسالت پر ان کی کیا رائے ہے؟ اورآیا میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانیت اُن کے لیے بھی اسی طرح تکلیف دہ مسئلہ ہے جس طرح یہ کسی عام پاکستانی مسلمان خاندان کا ہے؟ حکومتی ذمہ داروں کی غیر سنجیدگی اپنی جگہ مگر میں اس مذاق کو برداشت نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ میں جا کر فرماتے ہیں کہ فحاشی ہے کیا اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فحاشی کی تعریف کر کے لائیں تو یہ تماشا شروع کر دیا جاتا ہے۔ میں نے تو 27 اگست کے اجلاس میں کہہ دیا تھا کہ مجھے حکومتی ذمہ داروں سے کوئی امید نہیں کہ وہ آئین و قانون کا نفاذ کرتے ہوئے اس برائی کے سدباب کے لیے کام کریں گے۔ میں نے تو قاضی حسین احمد کی اس تجویز کی مکمل حمایت کی تھی کہ فحاشی کی تعریف کے لیے پارلیمنٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ذمہ داری سونپی جائے جو نہ صرف آئینی ادارے ہیں بلکہ عوام کے نمائندہ بھی، اور پھر اس اہم معاشرتی مسئلہ پر مذاق کرنے والوں کوتو قانون یہ اختیار بھی نہیں دیتا کہ وہ فحاشی جس کو پھیلانے میں ان کا اپنا بنیادی کردار ہے اس کی تعریف کریں۔ یہ کام تو پارلیمنٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کواسلام کی مقرر کی گئی حدوں کو توڑنے اور ان کا مذاق اڑانے سے بچائے۔ آمین۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ 27 اگست کے اجلاس میں پیمرا کے ذمہ داروں کو میں نے کہا تھا کہ قرآن اورحدیث کے علاوہ انہوں نے فحاشی کے متعلق دنیا بھر کی تعریفیں اجلاس کے سامنے پیش کر دیں۔ اجلاس کے بعد مجھے بتایا گیا کہ presentation میں قرآن پاک کے حوالے تھے مگر اجلاس سے قبل اُن کو نکلوا دیا گیا تھا۔
تازہ ترین