• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی بات سب سے پہلے:سندھ اور بلوچستان میں چھتیس قبیلوں کے سردار لیکن پڑھے لکھے میر ہزار خان بجارانی نے اپنی اہلیہ لیکن معرکۃ الآرا خاتون فریحہ رزاق کو اس طرح قتل کیا جس طرح انکے اپنے علاقے کشمور کندھ کوٹ سمیت، جیکب آباد، شکارپور، گھوٹکی، یا ملک میں بہاولنگر، اوکاڑہ ، مظفر گڑہ ، خانپور میں عام ان پڑھ آدمی یا ان پڑھ وڈیرہ سردار، ملک ،چوہدری اپنے یا دوسرے کی عورت قتل کرتا ہے۔ بس اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو گولی ماردی۔ ایک گولی خود کو کنپٹی میں مارنے سے پہلے اپنی بیوی فریحہ رزاق کے جسم میں اسی پستول سے تین گولیا ںاتاریں۔ عورت قتل ہوئی ایک سردار کے ہاتھوں۔ سندھ میں یا ملک میں کتنوں کے نزدیک بدقسمتی سے یہ کوئی جرم نہیں اور نہ ہی افسوسناک اور خلاف معمول بات ہے۔ خلاف معمول یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ہزار خان نے خود کو گولی ماردی۔ میڈیا میں یہی قصیدے اور مرثیے چل رہے ہیں۔ وہ عورت فریحہ رزاق جو پاکستان جیسے مردانہ یا پدری سماج میں فرق پیدا کر نا چاہتی تھی ، کوئی تبدیلی لانا چاہتی تھی وہ خاموش کردی گئی۔ مار دی گئی۔ ایسے جیسے پیارے پاکستان میں ہر سال کوئی ہزار سے بھی زائدعورتیں اور اس میں بھی بڑی تعداد میں صوبہ سندھ اور اس میں بھی زیادہ تعداد میں شمالی سندھ یا بالائی سندھ میں قتل ہوتی ہیں۔ فریحہ رزاق پڑھی لکھی تھی، میٖڈیا پرسن تھی، سیاستدان تھی، عوامی نمائندہ بھی رہی ، سندھ میں حکمران پاکستان پیپلزپارٹی کی۔ شاید وہ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سینیٹ میں بھی آنا چاہتی تھی ،قتل کردی گئی اور کئی سو میل ہزار خان کے گائوں سے دور دفن کردی گئی۔ وہ گائوں جہاں سرداروں کے کوٹ (مٹی سے بنی قلعہ نما دیوار پناہ) جہاں کئی کاری عورتوں نے قتل ہونے سے بچنے کو پناہ لی ہوتی ہے یا کئی کو اپنے مقدر کے فیصلوں کا انتظار ہوتا ہے۔وہ پڑھا لکھا بیوی کو قتل کر کے خود کو مارنے والا سردار بھی کئی ایسے جرگوں، فیصلوں کی سربراہی کیا کرتا تھا جہاں کارو کاری کے فیصلے ہوتے ہیں جہاں ’’سنگ چٹی‘‘ (جرمانے میں بچیوں کو رشتے میں لینا دینا یا ونی کرنا ) ہوتی ہے۔ ’’کاری‘‘ اس عورت کو کہتے ہیں جس پر ’’زنا‘‘ کا الزام لگتا ہے۔ کاریاں نہیں معلوم کتنی ہیں مگر سندھ میں ایسے کئی بچے ہیں جنکی شکلیں سرداروں، وڈیروں، میروں ،پیروں سے ملتی ہیں۔ لیکن اب اس سردار کی موت پر تو ماتم ہو رہا ہے۔ لیکن فریحہ رزاق کا خون ناحق بس ’’اتفاقی موت‘‘ کہلائے گا۔ داخل دفتر ہو جائیگا۔سب سردار کی ثنا خوانی میں لگے ہیں۔ یہ کوئی پہلی عورت نہیں تھی جو سرداروں نے قتل کی ہو یا کروائی ہو۔ سندھ میں ایسے کئی سردار، وڈیرے، انتہائی طاقتور شخصیات ہیں جنہوں نے اپنے گھروں کی عورتیں قتل کیں یا کروائی ہیں۔ فریحہ رزاق کیس کے حوالے سے بھی سندھ کے حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کو کئی اگرچہ مگرچہ چونکہ چنانچہ ہیں کئی سیاسی مصلحتیں ہیں۔ میرا دوست رسول بخش درس جو سندھ کا ایک محبوب شخص اور پائے کا لکھاری ہے نے ایک دیومالائی کہانی بیان کی ہے کہ انکے کوہستان کے علاقے میں لوگوں میں یہ تصور موجود ہے کہ جب انکے کوہستان میں کوئی سردار مرجاتا ہے دیو ہیکل پہاڑ کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر گرتا ہے۔ رسول بخش نے ٹھیک کہا ایسا کسی سردار کے مرنے پر تو اس دفعہ نہیں ہوا لیکن اس غریب لیکن بہادر شخص کے مرنے سے اس طرح ہوا کہ یہ پہاڑ جیسا شخص مر گیا جسے ملیر کراچی کے علاقوں میں لوگ چاچا فیض محمد یا چاچا فیض گبول کے نام سے جانتے تھے۔ چاچا فیض دنیا سے اپنی صدیوں کی زمین لینڈ مافیا بلڈر کو فروخت کرنے اور ہر لالچ کی پیشکش سے انکار کی پاداش میں جھوٹے مقدمات میں انصاف لیے بغیر رخصت ہوگیا۔ لیکن انصاف اور داد رسی سندھ میں عام شہری کی تب ہی ہوتی ہے جب پولیس اور انتظامیہ کو لگے کہ اقدام نہ اٹھانے سے انکی نوکری جا سکتی ہے یا حکومت کو خدشہ ہو کہ اس سے اگر حکومت جا نہیں سکتی تو ہل ضرور سکتی ہے۔ لیکن چاچا فیض محمد نہ فقط اپنی صدیوں سے آبائی زمین جو کہ ملیر ندی کے کناروں پر انگریز سرکار نے مال مویشی والے لوگوں کو چراگاہ کے طور پر دی تھیں ، انکے صدیوں سے قائم گائوں گوٹھ، یہاں تک کہ عیدگاہیں اور قبرستان ایک بڑے ٹائون میں لاکر، یا کہیں صنعتوں کے نام پر بے دخل کرنے کوپولیس یلغاریں کی گئیں۔ چاچا فیض کو بڑالالچ دیا گیا دھمکیاں دی گئیں۔ ایک بلڈر کہ جس کے ذاتی طیارے سیاستدانوں اور شہزادوں اور شہزادیوں کو لیے اڑتے ہیں خود چل کر ٰآیا کہ وہ اسکے ٹائون کے قریب آنیوالی اپنی زمین اسے فروخت کردے۔ کہتے ہیں فیض محمد گبول نے گھر چل کر آئے ہوئے بلڈر کی خاطر مدارت کی لیکن جب اس نے زمین فروخت کرنے کی بات کی تو چاچا فیض نے بلڈر کو کہا:’’ صاحب آپ کی ماں ہے؟‘‘ ’’کیا تم ماں کو بیچو گے؟ کیا کوئی اپنی ماں کو بیچتا ہے؟ اسی طرح زمین بھی میری ماں ہے۔‘‘ یہ فیض محمد گبول کا ملک کےایک بڑے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کو جواب تھا۔
فیض محمد گبول اور ملیر کے گوٹھوں والوں نے اپنی بے دخلیوں اور ایسی کوششوں جن میں جھوٹے مقدمات، گمشدگیاں، گرفتاریاں ، تھانوں میں تشدد، مہنگے ترین وکلا کے ذریعے سول کرمنل جھوٹی مقدمے بازی ، یہاں تک کہ خودکشیوں اور جعلی مقابلوں کے خلاف اپنا قانونی اور پر امن محاذ بنالیا۔ کئی ایسے گائوں ہیں جہاں نوجوان راتوں کو نہیں سوتے اور اب بھی نہیں سوتے ہیں کہ بلڈر اور دیگر لینڈ مافیاز پولیس سے ساز باز کرکے انہیں اٹھوا کر غائب کروا دیتے ہیں۔ زیادہ تر رائو انوار کے دنوں میں ماضی قریب تک ملیر ضلع میں زیادہ تر جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کا تعلق زمینوں کے خالی کروانے سے تھا۔ یہاں تک کہ نوجوانوں نے خودکشیاں تک کیں پولیس تشدد کے خوف سے۔ ایسے چند کیس سندھی ٹی وی چینلوں نے نشر بھی کیے۔ لیکن ظاہر ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام ان ہی کیسوں کو اٹھاتے ہیں جن میں انکی ’’مثبت میڈیا پبلسٹی‘‘ ہو۔ میڈیا میں سردار کی خودکشی کو تو رومنٹسائیز کیا جا رہا ہے پر ان کراچی کے گوٹھوں کے بچوں کا کیا ہوا جنہوں نے یا تو پولیس تشدد کے خوف سے خودکشی کی یا پھر زمینوں پرسے اٹھوائے جانے کے بعد جعلی مقابلوں میں مار دئیے گئے۔کراچی ملیر ہو، کہ میمن گوٹھ، چکرا، کہ صفورا، مراد گوٹھ کہ مرید بلکہ کئی بلوچوں، جوکھیوں، کلمتیوں ،گبولوں، ملاحوں، میر بحروں ، سیدوں کے گوٹھ بس ایسا ہے کہ جیسے غزہ کی پٹی میں ہوں۔ سوشل میڈیا پر ملیر کے گوٹھوں کے باسیوں کا کہنا کہ ایک بڑے بلڈر کوتیرہ سو تیس ایکڑ زمین ملی تھی پر اس نے سابق ایس پی ملیر کے توسط سے چالیس ہزار ایکڑ گائوں کے قدیم باشندوں کی زمین پر قبضہ کرلیا۔ اب بھی انکے بقول کہ ملیرضلع کے نوے دیہات خالی کرائے جانے کا خدشہ ہے۔ آپ نے کچھ عرصہ قبل ملیر میں فیض محمد گبول کے گائوں پرمذکورہ بلڈر کی ایما پر زمینیں خالی کرائے جانے یا زبردستی فروخت کروانے کے خلاف احتجاج پر رائو پولیس چڑھائی کے مناظر ٹی وی چینلوں پر نہیں تو سوشل میڈیا پر دیکھے ہونگے۔ جس میں بکتر بند بھی تھیں تو، پولیس فائرنگ بھی تھی تو آنسو گیس بھی لیکن انکے آگے ملیر کے بچے، عورتیں اور عمر رسیدہ لوگ بھی فیض محمد گبول کی قیادت میں بلڈوزروں کے آگے کھڑے ہوگئے تھے۔ کسی نے فیض محمد گبول کو ملیر کا عمر مختار کہا تھا۔ لیبیا کا عمر مختار جو اپنے تیل پر اطالویوں کے قبضے کے خلاف پیرانہ سالی میں اٹھ کھڑا ہو اتھا۔

تازہ ترین