• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کے بعد ہم نے تو یہ سمجھا تھا کہ الحمد للہ ہم سیاسی بلوغت کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ بدتہذیبی و بدکلامی کے دور منافرت سے ہم باہمی احترام و وقار یا کم ازکم جیو اور جینے دو کے ماحول میں پہنچ چکے ہیں لیکن لاہور کے ایک جلسے میں جو زبان استعمال فرمائی گئی ہے اُس نے ہماری تمامتر خوش گمانیوں کو راوی برد کرتے ہوئے ہمیں واپس 90کی دہائی میں ہی نہیں بلکہ 70ء کی دہائی کے عین آغاز پر لا کھڑا کیا ہے۔ یقیناً یہ خفیہ چالیں چلنے والوں ہی کی نہیں آمرانہ سوچ رکھنے والوں کی بھی فتح ہے۔ جو پارٹی گزشتہ چار دہائیوں سے آمریت کے بالمقابل جمہوریت کی چیمپئن بنی پھرتی تھی، جو مظلومیت کی چادر میں ملبوس اپنی قربانیوں اور شہادتوں کی کہانیاں سناتے نہیں تھکتی تھی وہ اقتدار کی ہڈی دکھانے والے کے پیچھے اپنے ہوش و حواس تک کھو بیٹھے گی اس کی قطعاً توقع نہ تھی۔ آج اگر محترمہ اپنی میراث کو یوں لٹتے دیکھتیں تو وہ یقیناً اس جہان سے کنارہ کشی کے لیے کسی دہشت گرد کے حملے کا انتظار نہ کرتیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ افراد کے آنے جانے سے اداروں کو فرق نہیں پڑتا ہم کہتے ہیں کہ فرق کس چیز کا نام ہے۔ ادارے تو عبقری افراد و شخصیات کے کرشمے ہیں۔ چاہے بنا دیں چاہے مٹا دیں۔ محترمہ کے بیٹے کو ضرور دیکھنا اور محسوس کرنا چاہیے۔ 70اور90ء کی دہائیوں میں جو ہوا سو ہوا مابعد یہ بی بی کی بے نظیر قیادت تھی جس نے اپنی پارٹی کو نئی سوچ اور نئی پہچان دی۔ اپنے سیاسی مخالفین سے تمامتر ناروا اختلافات کو خیرباد کہتے ہوئے آئینی و جمہوری بنیادوں پر ایک اصولی معاہدہ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ طے کیا۔ مابعد ایک عملیت پسند سیاستدان کی حیثیت سے عسکری جبر کو توڑنے کے لیے انہیں اگر ایک آمر سے ڈیل بھی کرنی پڑی تب بھی انہوں نے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا۔ یہ محترمہ ہی تھیں جنہوں نے 2008ء کے متوقع الیکشن میں حصہ لینے کے لیے سیاسی حریف کو دلیل کے ساتھ آمادہ و تیار کر لیا ورنہ مذہبی گروہوں کے زیرِ اثر نواز شریف صاحب بائیکاٹ کرنے والی آوازوں کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے آمادگی محسوس کرتے دکھائی دے رہے تھے مگر محترمہ نے انہیں بھائی کہا تو پھر بہن بن کر دکھایا۔ محترمہ کی جس طرح المناک شہادت ہوئی اُس پر وطنِ عزیز میں وہ کونسی بدبخت آنکھ ہے جو اشکبار نہ ہوئی ہو گی مگر اس دنیا سے راہی ملک عدم ہونے سے قبل محترمہ نے جو آخری آرزو کی وہ میاں نواز شریف سے گفتگو کرنے کے لیے تھی۔
یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے آج میڈم ناہید کے متعلق یا عباسی صاحب کے متعلق کوئی جو مرضی کہتا پھرے مگر بی بی جب تک زندہ رہیں یہ دونوں میاں بیوی ان کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے تھے۔محترمہ جب سنگ دل دہشت گرد کا نشانہ بن گئیںتو اس کے بعد اُن کی سیکورٹی پر مامورماہرین کا تو علم نہیں ہوا کہ وہ کہاں پہنچ چکے تھے البتہ اس دردناک سانحہ کے بعد جو قد آور سیاسی شخصیت سب سے پہلے بغیر کسی سیکورٹی کے اسپتال پہنچی وہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف تھے جن کے گلے لگ کر پی پی کے کارکن بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے اور خود اس وفادار بھائی کی آنکھوں سے چھلکتے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ مابعدیہ کہتے سنائی دیے کہ میں محترمہ کے مشن کی تکمیل کے لیے جدوجہد کروں گا۔ جی ہاں یہ وہی نواز شریف تھے جو کبھی ایک زمانے میں ڈکٹیٹر ضیاء کے مشن کا علم تھامے دکھائی دیتے تھے۔ اب طعنے بازیوں کی بجائے کیا ان کی اس ذہنی کایا پلٹ پر اظہارِ مسرت و ہمدردی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ نواز شریف جو کبھی ڈکٹیٹر کا ساتھی اور بھٹو دشمنی کی پہچان رکھتا تھا محترمہ کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کرتے ہوئے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کے چارٹر کو اپنی زندگی کا مشن اور نظریہ بنا چکا تھا۔ کسی کے ماضی کو پکڑ کر حال کی روشنی پر سیاہی پھیرنا اگر روا قرار دیا جائے گا تو پھر اس کی زد میں بڑی ہستیاں آئیں گی۔یہاں غلطیاں کس سے نہیں ہوئیں ہمیں تسلیم ہے کہ میاں صاحب سے مابعد بھی غلطیاں ہوئیں اور پھر انھوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا بھی ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی البتہ یہ عظمت ہے کہ انہوں نے اپنی خونی و جذباتی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر حق اور سچ کی آواز بلند کی وہ امریکا جسے ابا جی سفید ہاتھی کہتے نہیں تھکتے تھے محترمہ نے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے کارکنان کو سختی کے ساتھ اس کے خلاف نعرے بازیوں سے روک دیا امریکی پرچم جلانے والوں کو کھلی تنبیہ کی کہ یہ وتیرہ ناقابل برداشت ہو گا۔ UNپہنچ کر جمہورتیوں کے اتحاد کی بات کی اور دنیا بھر کی آمرتیوں کے خلاف عالمی ایکا کرنے کا نعرہ بلند کیا۔ وطنِ عزیز کے اندر طاقتور ادادروں کی آئین شکنیوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آج ہمارے دوست نواز شریف کے خلاف متنازع عدالتی فیصلوں کو جس عقیدت مندی سے پیش فرما رہے ہوتے ہیں کاش محترمہ کی وڈیوز نکال کر یہ سبھی اُن کے الفاظ میں تنقیدی مباحث کو سن لیں کاش محترمہ کا بیٹا اپنی والدہ مرحومہ کی تقاریر سننے کے لیے وقت نکال لے تو اُسے اپنی ماں اور باپ کی سوچ میں آسمان و زمین جتنا فرق واضح ہو جائے گا۔ آج نواز شریف اپنے خلاف آنے والے فیصلوں پر جو حقائق آشکار کر رہے ہیں ماقبل اس نوع کی تمام تر حقیقتیں محترمہ واضح فرمایا کرتی تھیں۔
ہم اپنی پی پی کے جمہوریت پر ایمان رکھنے والے دوستوں کو بالعموم اور بلاول بھٹو کو بالخصوص یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اقتدار کے لیے آپ لوگوں کی خواہشات بجا مگر بے اصولی پر مبنی حربوں چاپلوسیوں اور تہذیب سے عاری الفاظ سے آپ کو اقتدار نہیں ملے گا البتہ آپ اپنا رہا سہا وقار بھی کھو بیٹھیں گے۔ آپ بدتہذیبی میں سابق کھلاڑی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپ لوگوں کو اگر عوامی ہمدردی مل سکتی ہے تو وہ آپ کی کارکردگی اور اعلیٰ کردار و گفتار سے ممکن ہے۔ آپ لوگوں نے اگر کسی کو رول ماڈل بنانا ہے تو آپ کے پاس محترمہ کی صورت میں ایسی شخصیت موجود ہے جس کا احترام پوری قوم کے ہر طبقے میں پایا جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ 70ء اور90ء کے نعرے اب پرانے ہو چکے ہیں قوم کو با شعور سمجھتے ہوئے عصری تقاضوں کی مناسبت سے نیا پروگرام اور نئے نعرے تشکیل دیں۔

تازہ ترین