• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسئلہ کشمیر پر محبوبہ مفتی کا موقف انتہائی دو ٹوک ہے۔ کہتی ہیں کہ اس معاملے پر سابق بھارتی وزیراعظم اَٹل بہاری واجپائی کی پالیسی نریندر مودی کے لئے مشعل راہ ہے۔ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے محبوبہ مفتی کے اس موقف کو دہرانے سے بہتر اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ اِس پالیسی کو بھارت میں واجپائی کا نظریہ (Vajpayee Doctrine)کہا جا تا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ پالیسی کو ’’نواز۔ واجپائی نظریہ‘‘ کہنا سیاسی طور پر زیادہ درست ہوگا۔ شاید ہندوستان کے بااثر سیاسی حلقوں کے دبائو میں محبوبہ مفتی ایک پاکستانی سیاست دان کو کریڈٹ دینے سے گریز کر رہی ہیں۔ یہ اِن کی مجبوری ہوسکتی ہے کیونکہ صرف اٹل بہاری واجپائی کا نام لینا کم از کم سرکاری اوربی جے پی کے حلقوں میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہوسکتی۔ جبکہ نواز شریف کا نام ساتھ لگا دینا ہندوستان کے با اثر حلقوں میں اُن کے اس موقف کو بے اثر کر سکتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں ملکو ں اور خطے میں پائیدار امن کی خاطر نواز شریف کا واجپائی کو لاہور میں خوش آمدید کہنا اپنے طور پر ایک تاریخ ہے۔
یہی وہ روایت تھی جسے ابتدائی پس و پیش کے بعد، جنرل پرویز مشرف نے دہراتے ہوئے اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ بات چیت جاری رکھی۔ یوں یہ سلسلہ پاک بھارت سرحد پر شدید کشیدگی کے خاتمے اور انتہائی غیرمتوقع طور پر مظفر آباد۔ سری نگر بس سروس کے آغاز کا سبب بنا۔ البتہ فی الحال اِس نواز۔واجپائی نظریئے کو موقع کی مناسبت سے محبوبہ مفتی کے نقطہ نظر سے یہاں دہرایا جا سکتا ہے۔
سال 1998میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی مذاکرات کے ذریعے پاکستان سے بہتر تعلقات اور مسئلہ کشمیر کا مستقل حل بلاشبہ واجپائی کی ترجیحات میں شامل تھے۔ نریندر مودی کی موجودہ پالیسی کے برخلاف، وہ خطے میں پائیدار امن اور دو طرفہ تجارت کے حق میں تھے اور اپنے اسی موقف کے تحت وہ لاہور آئے جہاں اُس وقت پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے بات چیت کے بعد’’اعلان لاہور‘‘ پر دستخط کئے گئے۔ اُنیس برس گزر جانے کے بعد محبوبہ مفتی نے نریندر مودی کو حال ہی میں اعلان لاہور یاد دلایا اور زور دیا کہ دو طرفہ بات چیت کی بحالی انتہائی ضروری ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ ٹھیک وہیں سے شروع ہونا چاہئے جہاں نواز واجپائی رابطہ منقطع ہوا تھا۔ مودی بارہا محبوبہ مفتی سے واجپائی کی امن پالیسی پر چلنے کا وعدہ کرچکے ہیںلیکن وادی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب وہ مستقل پریشان رہتی ہیں ۔
یہ سچ ہے کہ دیگر بھارتی سیاست دانوں کے بر عکس وہ تسلیم کرتی ہیں کہ وادی میں بتدریج ایک نظریاتی تبدیلی رونما ہورہی ہے اور گزشتہ تین برسوں میں مقامی نوجوانوں کی باغیانہ کارروائیوں میں مستقل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جدوجہد میں کشمیری خواتین کی شمولیت بھی ان کے لئے باعث تشویش ہے ۔
دوسری جانب پاکستان کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیرکا فتح ہوجانا اور بھارت کی جانب سے وادی کو اپنا اَٹوٹ اَنگ مان لینا نوعیت کے اعتبار سے شاید کچھ سخت سیاسی رویئے ہیں۔ تقسیم ہند سے اَب تک وادی کے حالات کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ رائے شماری (Plebicite) اِس دیرینہ مسئلے کا دیر پاحل ہے۔ یہ تجویز کشمیر پر اقوام متحدہ اور پاکستان کے روایتی موقف کے قریب تر بھی ہے۔
رابطوں کے ذریعے تنازعات حل کرنے کا صدیوں پر محیط انسانی تجربہ جدید دنیا میں سفارت کاری کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا بنیادی سبب ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف سفارت کاری کی افادیت نے جگہ جگہ اپنے رنگ جمائے ہیں، وہیں طاقتور نیوز میڈیا کی صورت میں بننے والے نئے محاذوں نے اِس رنگ میں جگہ جگہ بھنگ ڈال کر تنازعات کو کم و بیش معمہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ محبوبہ مفتی کی جانب سے واجپائی کے نظریئے کی حمایت اور نریندرمودی کی جانب سے پیروی کے وعدوں کے باوجود بھارت کی داخلی سیاست کے خاص عوامل کے ساتھ ساتھ بھارتی نیوز میڈیا بھی مذاکرات کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
انیس سو اکیانوے میں پہلی اور دو ہزار تین میں دوسری خلیجی جنگوں میں سی این این، این بی سی، اے بی سی اور سی بی ایس جیسے امریکی نیوز چینلز کے کردار سے کون واقف نہیں! پہلی جنگ کے دوران ابلاغ کے جدید آلات کی بدولت دنیا نے پہلی بار براہ راست ہولناک میزائل حملے ہوتے دیکھے۔ لیکن خبر کے حصول کے لئے حملہ آوروں پر انحصار صحافت کے اس انداز کا تاریک ترین ترین پہلو ہے۔ خاص نوعیت کی اس صحافت کے لئے ایم بیڈڈ جرنلزم (Embedded Journalism) کی اصطلاح پہلی بار سال 2003میں دوسری خلیجی جنگ کے دوران استعمال کی گئی۔ اس موضوع پر تحریر کردہ مضامین و تصانیف اور تیار کی گئی دستاویزی فلموں سے تاثر ملتاہے کہ اس قسم کی صحافت ناگزیر طور پر حملہ آوروں کے مفاد ات سے وابستہ ہوتی ہے ۔ اِس کے باوجود اس جنگ میں فوجی حصار کو توڑ کرآزاد رپورٹنگ کرنے کا سہرا بھی امریکی میڈیا سے وابستہ ایک صحافی کو جاتا ہے۔ امریکیوں کی شدید ناراضی کے باجود پیٹر آرنٹ (Peter Arnett) نے پہلی خلیجی جنگ میں قیدیوں، عراق میں غیر عسکری مقامات پر بمباری اور معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کا بھانڈہ پھوڑ کر دنیا کو سچائی سے آگاہ کیا۔
اس کے برعکس اگر شمالی بھارت کا کوئی نیوز چینل کشمیر پر پاکستانی موقف کے حوالے سے خبر یا تبصرہ نشر کرتا ہے تو سچائی چینل کے نیوز روم یا اسٹوڈیو تک محدود رہتی ہے یاپھر’’ہدایات‘‘ کے بوجھ تلے کنٹرول روم میں بیٹھے کسی ’’دیش بھگتی‘‘ ٹیکنیشن کی مہارت کا نشانہ بن جاتی ہے۔
چند بھارتی اینکرز کہتے ہیں کہ شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر اقوام متحدہ کے چارٹر کی کوئی خاص قانونی حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔ ا نکا خیال ہے کہ دو طرفہ معاہدے قانونی اور سیاسی طور پردیگر تمام معاہدوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اسکے برعکس ان کے چند انتہا پسند ساتھی یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اسلئے اس معاملے میں کسی بھی سطح پر بات چیت کا کوئی جواز یا امکان نہیں۔ اس صورتحال میں ، میرے مطابق، محبوبہ مفتی کا موقف انتہائی دلیرانہ ہے۔ لیکن بھارتی نیوز میڈیا پاکستا ن سے مذاکرات پر اِنکی پالیسی اور خواہشات کو کسی بھی وقت بری طرح نشانہ بنا سکتا ہے۔ لہٰذا امن کے قیام کیلئے محبوبہ مفتی کو نریندر مودی اور پاکستانی حکمرانوں پر قسمت آزمانے کے ساتھ ساتھ بھارتی نیوز میڈیا کے روّیوں کو لازماً ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا؛ لیکن ہر روز، لمحہ بہ لمحہ!

تازہ ترین