• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی افریقہ کا خوبصورت اور سیاحوں کے لئے بھرپور کشش رکھنے والا شہر کیپ ٹائون ان دنوں سخت مشکلات کاشکار ہے۔یہ ساحلی شہر جنوبی افریقہ کادوسرا بڑا تجارتی مرکز ہے جبکہ براعظم افر یقہ کا تیسرا بڑا تجارتی مرکز سمجھاجاتا ہے۔ساحل سمندر پر واقع اس شہر کی قدرتی خوبصورتی، شہر میں دو ہزار سے زائد پلانٹس کی اقسام۔ شہر کی پیالہ نما شکل اور اردگرد چھوٹی بڑی پہاڑیاں اس شہر کو انفرادی حیثیت دیئے ہوئے ہیں۔ لیکن اس خوبصورت شہر کو ان دنوں ایک ایسی پریشانی نے آگھیرا ہے جس سے نہ صرف اس شہر کے مکینوں کو مشکلات پیش آرہی ہیں بلکہ پوری دنیا کے وہ خدشات جن کی عرصہ دراز سے پیش گوئی کی جارہی تھی ان خدشات نے سچ ہونا شروع کردیاہے۔ کیپ ٹائون کے لیے وہ پریشانی کیا ہے اور دنیا کے وہ خدشات کیا ہیں جوآنے والے وقت میں پوری دنیا کے لئے مشکلات پیدا کردیںگے۔ یہ بتانے سے پہلے میں اپنے پیارے ملک پاکستان کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں کہ بطور قوم اور معاشرہ ہم میں ایک ایسی خامی موجود ہے جو ہماری معمولی مشکل کو مشکلات کے سمندر میں تبدیل کردیتی ہے مثلاً محلے کے کسی خالی پلاٹ اور گلی کی کسی نکڑ پر کوئی ایک شخص گندگی کا ایک شاپر پھینکتاہے جسے ہم ایک شاپر یا گندگی کا ایک معمولی حصہ سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ خالی پلاٹ یاگلی کی نکڑ گندگی کے ایک ایسے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ اس کوڑے کو اٹھانے کے لیے بہت سارے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ رہائشی علاقے یا رہائشی گھروںکی کسی ایک عمارت میں کمرشل سرگرمی شروع ہوتی ہے جسے ہم قانون کے تحت پکڑنے کی بجائے صرف نظر کردیتے ہیں اور پھر دیکھتےہی دیکھتے رہائشی علاقے پورے کے پورے تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بننا شروع ہوجاتے ہیں،ٹریفک کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے ، اردگرد رہائشیوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ۔عام گھروں کے کرائے آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ قصور میں ایک بچی کو اغواء کرکے اس سے نہ صرف زیادتی کی جاتی ہے بلکہ اسے بے دردی سے قتل بھی کردیاجاتا ہے لیکن اہل علاقہ بھی اسے ایک ظالم کا جرم سمجھ کر تھوڑی دیر کے لیے کف افسوس ملتے ہیں ،تقدیر کا لکھا سمجھ کر افسوس کے چندجملے بولتے ہیں،پولیس بھی اپنی روایتی بے حسی اور طریقہ کار کی وجہ سے بہانے بازی کرتی نظر آتی ہے۔اور پھردیکھتے ہی دیکھتے پورے قصور کی درجنوں بچیا ں اسکا شکا ر بن جاتی ہیں۔ شدت کا احتجاج ہوتا ہے اور احتجاج کرنے والے گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ یعنی بطور معاشرہ اور بطور قوم ہم جب تک مشکلات اور مصیبتوں کے سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے ڈوبنے نہیں لگتے ہمیں مشکل مشکل نہیں اور مصیبت مصیبت نظر نہیں آتی اور پھر اس مشکل اور مصیبت سے نکلنے کے ہم سارے وسائل جھونکنے لگتے ہیں۔ دیگر سارے اہم کام چھوڑ کراس مصیبت سے نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگتے ہیں۔ ہمارے کروڑوں بچےا سکول نہیں جاپارہے اور آنے والے وقت میں اس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن ہم ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں سنجیدگی سے اس مسئلے کو نہیں لے رہے۔ بات کیپ ٹائون کی شکل سے شروع ہوئی تھی اور کہاں سے کہاں جانکلی ۔بات پھر کیپ ٹائون کی کرتے ہیں جہاں کے عوام ڈبے ،ڈول اور کین پکڑے پانی کے لیے سرگرداں ہیں جہاں پانی ہے وہاں لوگ ایک کین لینے کے لیے لمبی لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔یعنی افریقہ کا وہ شہر جس کی خوبصورتی کی کشش میں سیاح جوق درجوق آتے تھے افریقہ کاتیسرابڑا مرکز ہونے کی وجہ سے تاجر تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھینچے چلے آتے ہیں وہاں کیپ ٹائون کی سٹی گورنمنٹ نے لوگوں کو پانی دینا بند کردیا ہے خشک سالی نے لوگوں کے ہونٹوں پرپیپڑی باندھ دی ہے ۔زمین کی پیاس سے سرسبز زمین کوڑھ کے مرض میں مبتلا نظرآتی ہے اور اگر ایک مرتبہ پھر ہم پاکستان کی بات کریں تو پانی کے حوالے سے ہماری حالت بھی انتہائی غیر تسلی بخش ہے ایک تو بھارت نے ہمارا پانی روک کر ہمارے دریا خشک کردیئے اور پانی کے زمینی ذخیرے کو ہم نے استعمال کرکے ختم کردیا ہے جہاں ایک سو یا ڈیڑھ سو فٹ پر پانی مل جاتا تھا اب پانچ سو فٹ تک کھدائی کرنے پر بھی پانی نہیں ملتا ۔بارشوں کے موسم میں ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے پانی کی بہت بڑی مقدار ہم ضائع کردیتے ہیںاور دنیا کی طرح پانی کے چھوٹے ذخائر کو ڈھانپ کرمحفوظ بنانے کی بجائے اسے بخارات کی شکل میں ضائع کردیتے ہیں ہمارے ملک میں اجناس کی پیداوارکیلئے 95 فیصد دیاجانے والا پانی بھی کمی کا شکار ہے جس سے آنے والے وقت میں خوراک کا بحران بھی شدید ہوسکتاہے ہمیں ڈرپ ایری گیشن کو اپنا کر یعنی پوری زمین میں پانی چھوڑنے کی بجائے صرف پودوں کوپانی دیاجائے۔ استعمال شدہ پانی کوری سائیکل کرنے کے پلانٹ لگانے بہت ضروری ہیں۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے فوری طور پر ڈیم بنائے جائیں۔ سالٹ واٹر یعنی سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے پلانٹ لگانے چاہئیں ۔دستیاب پانی کے ذخائر کو دنیا کی طرح ڈھانپنے کے انتظامات کرنا بھی ضروری ہے فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ورنہ ہم بھی پہلے کیپ ٹائون اور پھر افریقہ کے خشک سالی کے شکار ممالک اور علاقوںکی طرح ہوجائیںگے۔

تازہ ترین