• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتظارحسین قتل کے مقدمے کی تفتیش ،سی ٹی ڈی کی تحقیقات مکمل

Intazar Murder Case Complete The Investigation Ctd

ڈیفنس میں پولیس فائرنگ سے کار سوار نوجوان انتظار کے قتل کے مقدمے کی تفتیش سی ٹی ڈی کی تحقیقاتی ٹیم نے مکمل کرلی ہے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 173 کے تحت تفتیشی رپورٹ آئندہ دو روز میں متعلقہ عدالت میں جمع کرا دی جائے گی۔

پولیس ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم نے اینٹی کار لفٹنگ سیل کے ایس ایچ او سمیت گرفتار پولیس اہلکاروں کے خلاف زیر دفعہ 302 اور 34 ت پ کارروائی کی سفارش کی ہے۔

عام حالات میں اس رپورٹ کو کسی مقدمے کا چالان کہا جاتا ہے لیکن مقدمہ کے چالان میں پولیس کی جانب سے تمام الزامات کو حتمی ظاہر کیا جاتا ہے لیکن دفعہ 173 کی یہ رپورٹ "پولیس فائنڈنگز" کہلائیں گی۔ اس میں مزید ردوبدل یا کاروائی کے لیے عدالتی احکامات کو فوقیت دی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق مقدمے کی عام تیاری انویسٹی گیشن افسر عزیز شیخ کر رہے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق ماضی میں کی گئی تحقیق کے دوران اس مقدمے میں دفعہ 319 کے تحت کاروائی کی اطلاعات تھیں جسے عام طور پر ’قتل خطا‘ کہا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق انتظار قتل کیس میں قتل خطا کا پہلو سامنے نہیں آرہا بلکہ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد تحقیقاتی ٹیم اسے جان بوجھ کر فائرنگ کرکے کسی کو قتل کرنا قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دو ملزم پولیس اہلکار بلال اور دانیال اس واردات میں براہ راست ملوث رہے۔ ٹیم کے دیگر ملزمان کیخلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 کا نفاذ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

اے سی ایل سی کے ایس ایچ او سمیت دیگر افسران اور اہلکاروں پر لازم تھا کہ وہ اس جرم کو روکتے یا ایسا کرنے کی کوشش کرتے مگر وہ تمام پولیس اہلکار و افسران اس کا حصہ ظاہر ہوئے۔

رپورٹ میں ایس ایس پی مقدس حیدر پر قتل کی سازش یا منصوبہ بندی کے الزام کے حوالے سے پولیس افسر نے بتایا کہ اس سلسلے میں تحقیقاتی ٹیم کے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں آئے اگر ایسا ہوتا تو ایس ایس پی اینٹی کار لفٹنگ سیل کیخلاف زیر دفعہ 109 کاروائی کی سفارش کی جاتی۔

گرفتار پولیس اہلکاروں پر الزام ہے کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے اپنی حفاظت کے لیے ملنے والا ہتھیار حملے کے لیے استعمال کئے۔ قانون کے مطابق انہیں ایسا اس صورت میں کرنے کی اجازت ہے جب انہیں اپنی جان کا خطرہ ہو لیکن مقتول نوجوان کی طرف سے ایسا کچھ سامنے نہیں آیا۔

ذرائع کے مطابق اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کی شمولیت کے حوالے سے بھی پولیس نے کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ یہ یہ معاملہ بھی عدالت پر چھوڑا ہے کہ عدالت اگر محسوس کرے تو اس مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہو۔ ایسی صورت میں پولیس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ کا اضافہ کرے گی۔

ادھرمقتول انتظار کے والد کی گزشتہ روز پریس کانفرنس میں الزامات کی بھی تحقیقات شروع کردی گئیں۔

تازہ ترین