• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Search For Mqms Alternate

ایم کیو ایم کی سیاست ایک بار پھر سے دوراہے پر ہے،چار سال کے اندر ایک ایسی پارٹی جو ووٹ کی قوت سے 30 سال تک راج کرتی رہی، عملاً ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ یہ ایسے وقت ہوا جب آئندہ عام انتخابات میں مشکل ہی سے چار مہینے رہ گئے ہیں۔

ایم کیو ایم کےا ندر جو کچھ بھی ہوا، وہ قیادت کے ناکام ہونے کا غماز ہے جس نے شہری سندھ کے سیاسی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں اتنا بڑا سیاسی خلا کون پر کر سکے گا؟

شہری سندھ میں قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے لئے ہمیشہ گنجائش رہی ہے۔ خصوصاً پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو مواقع ملے لیکن ان میں سے کسی نے بھی خلا بھرنے اور اپنی جگہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ کراچی میں کوئی ایم کیو ایم کو نشانہ بنا کر متبادل نہیں بن سکتا لیکن کراچی کے سیاسی محرکات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے جگہ بنائی جا سکتی ہے۔

آج کی جو صورتحال ہے۔ ایم کیو ایم لندن اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں ایک بند باب ہے۔ چند سال قبل سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا تھا کہ مبینہ پاکستان دشمن سرگرمیوں کے باعث کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم لندن کو کوئی گنجائش اور سہولت نہیں دی جا سکتی۔

سن 22 اگست 2016کو ایم کیو ایم کے بانی کی قابل اعتراض تقریر اور پاکستان مخالف نعروں کے بعد ایم کیو ایم پاکستان حادثاتی طور پر وجود میں آئی جو ایم کیو ایم کے حامیوں کے لئے امید کی کرن بنی لیکن گزشتہ چند ماہ میں رونما تبدیلیاں اور خصوصاً چند دنوں کے دوران جو کچھ ہوا، اس نے ان کی امیدوں اور توقعات کو خاک میں ملا دیا ہے۔

سابق ناظم شہر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی قیادت میں پاکستان سرزمین پارٹی نے کراچی کی سیاست کو نیا نام دینا چاہا۔ ان کے لئے حقیقی آزمائش رواں سال کے عام انتخابات ہوں گے۔ کراچی اور شہری سندھ میں تمام تر ممکنات کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ایک سے زائد جماعتوں میں تقسیم ہوں گی۔

ایم کیو ایم پاکستان نے اب خود کو ایک اور گھائو لگایا ہے ڈاکٹر فاروق ستار صورتحال کو سمجھنے میں بری طرح ناکام رہے اور معاملہ بگاڑ دیا۔ آزادی کے بعد سے مسلم لیگ ہی کے اندر مہاجروں نے ہمیشہ یکے بعد دیگرے سیاسی متبادل تلاش کیا۔ پہلے ان کی نگاہیں شہید ملت لیاقت علی خان اور اس کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی جانب ا ٹھیں۔

پہلے عام انتخابات میں ووٹرز کا رجحان مذہبی جاعتوں کی جانب ہوا جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نمایاں ہیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو سے بھی انہیں توقعات رہیں۔

سن1970کی دہائی تک مہاجر اپنی سیاسی شناخت میں ناکام رہے۔ پہلی بار جماعت ا سلامی اور جے یو پی نے اردو کے نام پر لسانی فسادات کے دوران ’’مہاجر کارڈ‘‘ کھیلا۔ 1977میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک دیگر وجوہ سے زیادہ شہری سندھ کے حوالے سے بھٹو کی پالیسیوں کے خلاف تھی۔

یہی وجہ تھی جنرل ضیاء الحق نے دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی اور شہری سندھ میں جماعت اسلامی کے خلاف مہاجر کارڈ بروئے کار لانے کی ٹھانی۔ لیکن خود ضیاء الحق کو بھی توقع نہ تھی کہ 1978میں بننے والی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کو مہاجروں میں اس قدر بے نظیر پذیرائی ملے گی۔

جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی پھانسی اور آٹھویں آئینی ترمیم کی منظوری تک جماعت اسلامی کو استعمال کیا اور مقاصد پورے ہو گئے تو 1984میں طلباء یونینوں پر پابندی لگا دی۔ یہ پہلا قدم تھا دوسرا قدم غیر جماعتی انتخابات کی صورت میں اٹھایا گیا جو شہری سندھ میں جماعت اسلامی اور جے یو پی کے لئے سب سے بڑا دھچکا تھا۔ یہ شہری سندھ کی سیاست میں پہلا اہم موڑ تھا۔ ایم کیو ایم اس وقت تک سیاسی جماعت بن کر نہیں ابھری تھی۔ لیکن اے پی ایم ایس او کیمپس کی سیاست میں اپنی جگہ بنا رہی تھی۔ سیاسی جماعتوں کے لئے دیوار پر لکھا سامنے تھا۔

سن 1986میں ایم کیو ایم بنی۔ اس کا پہلا جلسہ نشتر پارک میں ہوا۔ اس وقت بھی ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہونے کا یقین نہ تھا۔ لیکن 1987کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے بھر پور عوامی حمایت سے فیصلہ کن برتری حاصل کی۔ گو کہ جماعت اسلامی بھی متوسط طبقے کی نمائندگی کرتی ہے لیکن بلدیاتی انتخابات کے بعد ایم کیو ایم متوسط طبقے کی نمائندہ بن کر ابھری کراچی اور حیدر آباد میں اس کے میئر منتخب ہوئے1988کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے فقید المثال کامیابی حاصل کی۔

کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص اور سکھر میں انتخا با ت جیت لئے لیکن ایک پریشان کن عنصر دیگر جماعتوں کے لئے یہ رہا کہ 1984 سے 1988 کے دوران تشدد نے جڑ پکڑی۔ علی گڑھ اور قصبہ کالونی کے سانحات اور حیدر آباد میں قتل عام ہوا جس نے سندھ کی لسانی سیاست میں انتشار کو ہوا دی فقید المثال حمایت حاصل کرنے کے بعد پارٹی کے اندر مسئلہ کھڑا ہوا۔ جب سیکٹر اور یونٹ دفاتر کے ذریعہ علاقوں کو اپنے جبری کنٹرول میں لانے کی کوشش کی گئی۔

دوسری جانب اردو داں طبقے نے ایم کیو ایم کی قیادت سے احتجاج کرتے ہوئے انہیں طاقت کی سیاست سے گریز کا مشورہ دیا۔ 1990 کی دہائی میں میڈیا سے تصادم نے بھی ایم کیو ایم کو نقصان پہنچایا جس نے اندرون اور بیرون ملک اس کے تاثر کو مزید مجروح کیا۔ اس کے باوجود انتخابات میں کراچی اور حیدر آباد کے ووٹرز نے ایم کیو ایم کو ہی ووٹ دیئے لیکن بلاوجہ اس نے مبینہ طور پر ملنے والے ووٹ دگنے کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تاہم 1992 کے بعد سے ایم کیو ایم کو جس طرح چلایا گیا۔ اس نے بھی ’’پولیٹیکل انجینئرنگ‘‘ کے حوالے سے سنگین سوالات کھڑے کئے۔

سن 1992 میں ایم کیو ایم حقیقی قائم ہوئی لیکن اسے مہاجروں میں قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ حتیٰ کہ ایم کیو ایم بانی کے مخالفین نے بھی قبول نہیں کیا۔ آپریشن کے باوجود ایم کیو ایم کی عوامی حمایت برقرار رہی۔ عظیم احمد طارق سمیت ایم کیو ایم اور حقیقی کے سیکڑوں کارکنان ٹارگٹ کلنگ کی نذر ہوئے بدقسمتی سے 1990کی دہائی میں اپنے خلاف آپریشنز سے ایم کیو ایم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

سن 2002 میں ایک سمجھوتے کے تحت جب ایم کیو ایم سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی اتحادی بنی تو اس کے پاس اپنی اصلاح اور متوسط طبقے کی صحیح نمائندہ پارٹی بننے کا بہترین موقع تھا۔ یہ ایم کیو ایم اور اس کے بانی کی وطن واپسی اور غلطیوں سےرجوع کرنے کا بہترین وقت تھا۔

پرویز مشرف اور اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم میں اصلاحات کے بجائے اس کے مبینہ عسکری ونگ کی پشت پناہی کی۔ 12مئی 2007 کی تاریخ ایم کیو ایم کو واپس 1990 کی دہائی میں لے گئی۔ 2008سے 2013 کے درمیان ایم کیو ایم کو از سر نو منظم ہونے کا موقع ملا۔

پیپلزپارٹی کی حکومت اور سندھ میں اس کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی صورتحال خراب کی۔ ایم کیو ایم کے خلاف لیاری گینگ وار کو استعمال کیا گیا۔2013 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کراچی صورتحال سے نمٹنے میں غلط اور ناقص پالیسی کے ردعمل میں مہاجروں نے ایم کیو ایم ہی کو ووٹ دیئے لہٰذا 30سال کے عرصہ میں ایم کیو ایم کے متبادل کو کم و بیش انجینئرڈ کیا اور غلط طریقے سے نمٹا گیا۔

ایم کیو ایم کے بانی نے 2013 میں اپنے ہی کارکنوں کو پارٹی رہنمائوں سے بدسلوکی کی اجازت دے کر از خود نقصان پہنچایا۔ یہ ان کے خاتمے کی ابتداء تھی۔ ان کی سیاست ہی نہیں بلکہ خود ایم کیو ایم اس کی لپیٹ میں آگئی۔

انہوں نے 2013 کے کراچی آپریشن کا بھی غلط اندازہ لگایا۔ ڈاکٹر عشرت العباد، ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف درشت زبان میں خطابات جاری رکھے۔ اب سندھ کی شہری سیاست اور انتخابات میں پہلی بار حیرانی کا عنصر سامنے آئے گا۔ ایم کیو ایم اور مہاجروں کے لئے اپنی ماضی کی سیاست سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ واقعی خود کو سدھارنا چاہتے ہوں۔

تازہ ترین