• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کالم ’’حکمرانی کی سیاست اور موٹر وے‘‘ پڑھنے کے بعد ایک کرم فرما کی رائے تھی کہ اگر مسلم لیگ (ن) آئندہ الیکشن جیتی تو شہباز شریف حکومت سنبھالیں گے۔ اُن کی پہچان، موٹر وے کی بجائے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبے ہیں۔ اب نواز شریف بھی اُن کی تائید کر رہے ہیں۔ اُس ناقد کا خیال تھا کہ بدقسمتی کا اصل دور اُس کے بعد شروع ہو گا۔ لاہور میں میٹرو بس کے علاوہ، اورنج ٹرین کا منصوبہ زیرِ تکمیل ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بس رواں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا ارادہ ہے کہ فیصل آباد، ساہیوال، سرگودھا اور بہاولپور میں بھی میٹرو بس شروع کی جائے۔ اُنہوں نے اِس خدشے کا اظہار کیا کہ صوبائی خزانہ اورنج ٹرین اور اِن بسوں کو رواں رکھنے میں خالی ہو جائے گا کیونکہ ٹکٹ کی رقم بہت کم رکھنے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے۔ جب وسائل باقی نہ بچے تو تعلیم اور صحت کے شعبوں کی زبوں حالی میں اضافہ ہو گا۔
اُن کی بات سُن کر میں سوچ میں پڑ گیا۔ احساس ہوا کہ عوام کے لئے مختلف امدادی منصوبوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جمہوری دور میں حکمرانوں کو ہمیشہ ایک دُشواری کا سامنا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سرکاری امداد دی جائے تو زیادہ سے زیادہ رائے دہندگان کی خوشنودی حاصل ہو۔ مشکل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو سرکاری امداد سے سستا کیا جائے تو امیر اور غریب دونوں فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ 2008ء کے دوران تیل کی بین الاقوامی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اُس کے نرخ بڑھائے مگر متوسط طبقے کی مشکل گھٹانے کے لئے سی این جی کی قیمت کم رکھی۔ مگر سستی سی این جی کی قلت ہو گئی کیونکہ اُس کے سلنڈر، پجارو اور مہنگی گاڑیوں میں بھی نظر آنے لگے۔
شہباز شریف کی حکومت میں عوامی سہولت کے لئے 1998ء کے دوران فلور ملوں کو سستی گندم فراہم کی تاکہ آٹا سستا ہو سکے۔ ایک سال کے دوران چار ارب روپے خرچ ہوئے۔ مگر صرف غریب طبقے کو نہیں بلکہ یہ امداد امیروں کے کچن میں بھی پہنچ رہی تھی۔
2008ء میں شہباز شریف نے ’’سستی روٹی‘‘ سکیم متعارف کرائی۔ پس منظر میں سوچ تھی کہ غریب لوگ ہی عوامی تندور سے روٹی خریدتے ہیں۔ پورے پنجاب میں تندوروں کا چنائو کر کے سستا آٹا فراہم کیا گیا۔ مگر عمل درآمد کے دوران مشکلات درپیش ہوئیں تو اِس امدادی منصوبے کو ختم کر دیا گیا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی اہمیت کے بہت سے منصوبوں اور پروگرامز کو سرکاری امداد سے چلاتی ہیں۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے پاکستان کے بڑے شہروں میں سرکاری امداد سے اندرونِ شہر آمدورفت کی سستی سہولت بھی میسر تھی۔ اگر ڈبل ڈیکر بس لاہور کی پہچان تھی تو کراچی کی ٹرام اور سرکولر ریلوے شہریوں کو سفر کی سہولت مہیا کرتی۔ وقت کے ساتھ ٹکٹوں سے وصول ہونے والی آمدن میں کمی آئی اور اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ 1990ء کے دوران یہ شکایت عام ہو گئی کہ شہر میں چلنے والی بسوں کے انجن سے پرزے غائب ہو جاتے ہیں، ڈیزل چوری ہوتا ہے اور غیر ضروری اخراجات کے علاوہ مرمت کے جعلی بل بنائے جاتے ہیں۔ خزانے پر بوجھ جب برداشت سے باہر ہو گیا تو اِن بسوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یونین نے رکاوٹ ڈالی۔ بالآخر مشکل قانونی اور انتظامی مراحل سے گزرنے کے بعد یہ کمپنی بند ہوئی۔ اُس کے بعد عوام پرائیویٹ سیکٹر کی ویگنوں کے رحم و کرم پر تھے۔ کئی سال یہی حال رہا۔1998-99ء میں فیصلہ کیا گیا کہ پرائیویٹ سیکٹر کو سرکاری انتظام کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبے میں شامل کیا جائے۔ لاہور میں محدود پیمانے پر اس سکیم کا اجراء ہوا۔ 2008ء تک حالات میں بہتری نہ آئی۔ شہباز شریف نے دوبارہ حکومت سنبھالنے پر میٹروبس کا منصوبہ شروع کیا جو 2013ء میں مکمل ہوا۔ احتیاط کی گئی کہ بسیں نجی شعبے کی ملکیت میں ہوں۔
دُنیا کے بڑے شہروں میں بسوں کے لئے مخصوص راستوں پر نجی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ اِس ضابطے کی خلاف ورزی پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں قانون پر عمل کرنے کی عادت کمزور ہو چکی ہے، اس لئے بس کے راستے کو پرائیویٹ گاڑیوں کے لئے لوہے سے بنی رکاوٹ لگا کر بند کیا گیا۔ سیاسی مخالفین بغور جائزہ لئے بغیر، اِس رکاوٹ کے حوالے سے منصوبے کو ’’جنگلا بس‘‘ کا نام دے کر مذاق اُڑاتے رہے۔
اچھی حکمرانی کی ضرورت ہے کہ سیاسی پارٹیاں عوامی امداد کے ہر منصوبے کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں۔ اِن منصوبوں میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور خیبر پختونخوا صوبے میں ساڑھے بارہ ارب روپے کی لاگت سے بلین درخت لگانے کا منصوبہ شامل ہے۔ مگر مخالفت اتنی شدید ہے کہ سیاست دان آزادانہ جائزہ لئے بغیر تنقید کرتے ہیں۔پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے عوامی ترجیحات کچھ مختلف ہیں۔ متوسط طبقہ بھی کوشش کرتا ہے کہ چاہے پرانی ہو یا چھوٹی، مگر گھر میں موٹر کار ہو۔ اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو کم از کم موٹر سائیکل خریدا جائے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران چینی کمپنیوں کے اشتراک سے بنے ہوئے سستے موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ لوگ آمدورفت، کاروبار اور پورے خاندان کی سیر و تفریح کے لئے اِسی ذاتی سواری کو استعمال کرتے ہیں۔ اِن حالات میں میٹرو بس پر سفر کرنے والے تقریباً سب لوگ وہی ہیں جن کے پاس ایک سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل خریدنے کے پیسے بھی نہیں۔ اُنہیں بیس روپے میں آرام دہ اور باعزت سفر میسر ہوا۔ اِن کے علاوہ وہ خواتین جو مسافروں سے بھری ویگنوں میں سفر کرنے سے کتراتی تھیں، اِس سہولت سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ اِس طبقے کے لئے میٹرو بس ایک نعمت سے کم نہیں۔ پورے پنجاب میں ٹکٹ سستا کرنے پر، میری اطلاع کے مطابق، تقریباً چھ ارب روپے سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ منصوبے کی عوامی مقبولیت دیکھتے ہوئے (ن) لیگ کی قیادت سمجھتی ہے کہ اِس رقم کا مصرف دُرست ہے اور صوبائی خزانے پر بڑا بوجھ نہیں۔ اُن کا ارادہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں میٹرو بس چلائی جائے۔
کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بسنے والے لوگ، لاہور میں چمکتی دمکتی، ایئر کنڈیشنڈ میٹرو بسوں کو دیکھ کر اپنے شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ سے تقابل کرتے ہیں۔ پرانی اور بوسیدہ بسوں میں ٹھسے ہوئے اور چھتوں پر سفر کرتے مسافروں کو دیکھ کر یہ تضاد شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی تنقید کو بھول کر، سیاسی ضرورت کے تحت خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے لاہور کی میٹرو بس سے بھی مہنگی بس سروس کا منصوبہ بنایا۔ الیکشن قریب ہیں۔ دن رات کام ہو رہا ہے۔ صوبائی حکومت الیکشن سے پہلے منصوبہ مکمل کرنا چاہتی ہے۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ الیکشن تک منصوبہ مکمل نہ ہوا تو جنگلا بس کے لئے کھدے ہوئے راستوں میں سیاست پھنس کر رہ جائے گی۔

تازہ ترین